2018 - مکتبہ فیوض القرآن

یہ بلاگ اسلامی معلومات کے ڈیجیٹل اور فزیکل وسائل تک رسائی کےلیے مواد مہیا کرتا ھے۔ ھمارے واٹس ایپ پر رابطہ کرٰیں 00-92-331-7241688

تازہ ترین

Sponser

Udemy.com Home page 110x200

Translate

جمعہ، 23 نومبر، 2018

اگر غیر منکوحہ لڑکی خواب ميں یہ دیکھے

جمعہ, نومبر 23, 2018 0

 : إذا رأت الفتاة الغير متزوجة أن رجلاً غريباً يقوم بمجامعتها وممارسة العلاقة الزوجية معها
 فإن الرائية تقبل على عمل او وظيفة او عمل سيء ، وربما اشارت رؤيتها إلى تعرف الرائية على رجل سيء الطباع يسعى لقضاء حاجاته وإشباع غرائزه منها .
اما إذا كانت الفتاة ذات خلقٍ ودين وطيبة الخلق وحسنة السلوك ولا تخالط الرجال فإن رؤيتها تعبر عن قرب زواجها وارتباطها ، وفي حال رأت الفتاة أن رجلاً أبيض حسن الهيئة والسلوك يجامعها فإنه يعبر عن الراحة والسعادة التي تلاقيها الرائية في زواجها ،  وأما إن كان الرجل فظ السلوك سيء الهيئة والصورة فإنه يعبر عن مصائب وشدائد مختلفة تهدد استقرار حياتها .
من رأت أن الرجل يجامعها في السوق وأمام الناس فإن رؤيتها تدل على كشف أسرار ومعلومات تخص الرائية قد تتعلق بعرضها وشرفها .

اگر غیر منکوحہ لڑکی یہ دیکھے کہ کوئی نامعلوم آدمی  اس کے ساتھ جماع کرتا ھے یا علاقہ زوجیت کا قائم کرتا ھے  اور عورت اس کے بدلے اس سے کوئی کام لیتی ھے یا پیسے لیتی ھے یا کوئی برا کام کرواتی ھے ۔۔ تو دلیل ھے کہ وہ گندی طبیعت کے آدمی سے واقف ھوگی جو اپنی خواھشات پوری کرنا چاھتا ھے
اور اگر لڑکی دیندار ھے بااخلاق ھے حسن سلوک والی ھےاور اس کا مردون کے ساتھ کوئی اختلاط نہین رھتا تو۔۔ اس کا یہ خواب دیکھنا دلیل ھے اس بات کی اس کا نکاح قریب ھے۔۔اور اگر دیکھے کہ لڑکا خوبصورت ھے اچھی صورت والا ھے۔۔ اس کے ساتھ جماع کرتا ھےتو یہ دلیل ھے راحت سعادت کی جو اس کو شادی کے بعد حاصل ھونے والی ھے
[اور اگر بندہ برے سلوک والا ھے گندی شکل والا تو دلیل ھے مشکلات  کی جو اس کی زندگی میں آنے والی ھین
Read More

بدھ، 14 نومبر، 2018

Thank you for signing up!

بدھ, نومبر 14, 2018 0

HIRESINE
Thank you for signing up!Your account is now active.
If you have any problems, please contact us at hiresine@gmail.com
Thank you!
The HIRESINE Team
Read More

جمعہ، 2 نومبر، 2018

مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملہ میں شہیدؔ

جمعہ, نومبر 02, 2018 0


آج بروز جمعہ مورخہ 2 نومبر 2018 کو مولانا جب روالپنڈی اپنے کمرے میں آرام فرما رھے تھے کسی نے ان کو چھریوں سے وار کرکے شھید کر دیا۔
راولپنڈی پولیس نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ سمیع الحق راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں سفاری ون ولاز میں رہائش پذیر تھے. 



یہ واقعہ اس دوران پیش آیا بکہ مولانا اسلام آباد دھرنے میں شرکت کے لیے پشاور سے روانہ ھونے کے لیے تشریف لائے تھے وہ اپنے گھر سفاری ولاز واپس روانہ ھوگئے تھے اور اپنے کمرے میں آرام کر رھے تھے۔۔پڑوسیوں کی اطلاع کے مطابق قاتل موٹر سائیکل پر سوار تھے یہ قتل قاتلوں نے پوری منصوبہ بندی سے کیا

Read More

اتوار، 28 اکتوبر، 2018

تفسیر جواھرالقرآن - سورۃ 1 - الفاتحة - آیت 2

اتوار, اکتوبر 28, 2018 0


أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

ترجمہ:
سب 1 تعریفیں 2 اللہ کے لیے ہیں جو پالنے والا 3 سارے جہان کا 4

تفسیر:
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
1 سورة الفاتحہ 
 خلاصہ : سورة فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ” اُمُّ الْقُرْاٰنْ “ سب سے زیادہ جامع اور مشہور ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ امّ کے معنی یہاں مغز اور خلاصہ کے ہیں یہ سورت چونکہ ان تمام مضامین کا خلاصہ ہے جو سارے قرآن میں بالتفصیل مذکور ہیں اس لیے یہ سورة مبارکہ ام القرآن کے نام سے موسوم کی گئی۔ اس کی دو تقریریں ہیں۔
 پہلی تقریر : مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اس کی تقریر یہ فرمائی کہ قرآن مجید میں چھ مضامین بیان کیے گئے ہیں۔
 1 ۔ توحید 2 ۔ رسالت 3 ۔ احکام 4 ۔ قیامت 5 ۔ ماننے والوں کے احوال 6 ۔ نہ ماننے والوں کے احوال۔
 اور سورة فاتحہ میں یہ تمام مضامین بالاجمال موجود ہیں۔ الحمدللہ سے الرحمن الرحیم تک توحید۔ ملک یوم الدین میں قیامت۔ ایاک نعبد اور اھدنا الصراط المستقیم میں احکام کا بیان ہے کیونکہ نعبد میں عبادت کے تمام طریق اور احکام کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح الصراط المستقیم سے شریعت کے تمام احکام مراد ہیں صراط الذین انعمت علیھم میں ایک طرف رسالت کا بیان ہے کیوں کہ منعم علیہم چار جماعتیں ہیں جن میں انبیاء (علیہم السلام) سرفہرست ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادھے اولئک الذی انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا (سورۂ نساء) اور دوسری طرف ماننے والوں کے احوال کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ماننے والوں کو ہر قسم کے انعام واکرام سے نوازاجائے گا۔ اور غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میں نہ ماننے والوں کا ذکر ہے۔ اسی طرح یہ سورت قرآن مجید کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے اور اسی بنا پر اس کا نام ام القراٰن ہے۔
 دوسری تقریر : دوسری تقریر ہمارے شیخ حضرت مولانا حسین علی (رح) کی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت امام ربانی (رح) نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے۔ نیز تفسیر مواہب الرحمان جلد 1 ص 3 میں ہے کہ سارے آسمانی علوم اور قرآن مجید کا خلاصہ سورة فاتحہ میں موجود ہے کیوں کہ مضامین کے اعتبار سے قرآن مجید کے چار حصے ہیں ہر حصہ الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے۔
 پہلا حصہ سورة فاتحہ سے سورة مائدہ کے آخر تک ہے اس حصہ میں زیادہ تر خالقیت کا بیان ہے یعنی ساری کائنات کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ دوسرا حصہ سورة انعام سے سورة بنی اسرائیل کے آخر تک ہے اس حصہ کا مرکزی مضمون ربوبیت ہے یعنی اس میں زیادہ تر اس میں زیادہ تر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو حد کمال تک پہنچانے والا۔
Read More

تفسیر جواھر القرآن۔ سورة الفاتحه

اتوار, اکتوبر 28, 2018 0
القرآن - سورۃ 1 - الفاتحة - آیت 1

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورة الفاتحہ۔ سورة نمبر ۔ تعداد آیات 7 )
Read More

بدھ، 10 اکتوبر، 2018

ماہ صفر اور اس کی بدعات

بدھ, اکتوبر 10, 2018 0


از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏، استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو:
          عَنْ أبي ھُرَیْرَةَ رضي اللّٰہُ عنہ قال: قال النبيُّ ﷺ :”لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)
          مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔
ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ
          ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “․
          ترجمہ:”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا ،میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا“۔
          اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے،طریقہٴ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ؛اس لیے سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری دی ہے۔
          تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث موضوع ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے؛ چناں چہ ائمہٴ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
           چناں چہ ملا علی القاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ لَا أصْلَ لَہ“․(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبریٰ، حرف المیم، رقم الحدیث: 437،2/324،المکتب الإسلامي)
           اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال القاري في الموضوعات تبعاً للصغاني: ”لَا أصْلَ لَہ“․ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم، رقم الحدیث:2418، 2/538،مکتبة العلم الحدیث )
          اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال الصغاني: ”موضوع“․ وکذا قال العراقي․ (الفوائد المجموعة في أحادیث الضعیفة والموضوعة للشوکاني، کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیة والعبادات في الشھور، رقم الحدیث: 1260،ص:545، نزارمصطفیٰ الباز، مکة المکرمة)
          اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          وکذا (أي: موضوع) ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قزویني، وکذا قال أحمد بن حنبل:اللآلیٴ عن أحمد ومما تدور في الأسواق ولا أصل لہ․ (تذکرة الموضوعات للفتني،ص:116، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
          فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ :
          میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟․․․․․تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی؛ جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے؛حالاں کہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے(۵/۴۶۱)۔
          نمبر: ۲   اس منگھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
          نمبر : ۳  محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا؛ اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا؛ چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
          خلاصہٴ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
 ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت
          ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو روزہ رکھنے کا شرعی حکم
          حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ،جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔
          سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
          جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس (روزہ) کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی؛ کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم
          اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قُل اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ﴾ دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ﴿ قُل ادْعُوا اللّٰہَ أوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ دوآیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
          اس طریقہٴ نماز کی تخریج کے بعدحضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔
          وہ شرائط یہ ہیں:
          (1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لیے کیا جاتا ہے۔
          (2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
          (3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
          (4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
          (5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام: 5/ 103، 104، إدارة القرآن کراتشي)
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم
          سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام (کھانا کھلانا) کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
          جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)
صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم
          سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کے اعمال شریعت میں جائزہیں یا نہیں؟
          الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد:2/302، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا
          سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دار“ ان ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے؛ کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاوٴ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل ِ صحت کیا تھا؛ مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں غیرمعمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تومعلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارو مدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔
          الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟
          ب:جاہل کاریگروں کی ایذاء رسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کا فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟
          ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟
          د: حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟
          الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں؛ البتہ شدتِ مرض کی روایت ”مدارجُ النبوة“ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے۔
          یہود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔
          (الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں (ہوتا) ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر (ہوتا)ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسی کفر و شرک ہے؛ اس لیے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روز غسل ِصحت (کرنا) ثابت نہیں ہے،(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، (نیز!) بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
          (ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
          (ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)
          (د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3/ 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
          سوال:ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
          الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے؛ اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1/360، ایچ ایم سعید)
صفر کے آخری بدھ کو چُری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے
          سوال: ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ”ماہنامہ النصیحہ“ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) و خیرات یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟
          الجواب: چوں کہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے۔ لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ”انہوں نے چُری مانگی “ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لِعَدَمِ ثُبُوْتِ ہَذا الْحَدِیْثِ فِي کُتُبِ الأحَادِیْثِ وَلاَ بِالاسْنَادِ الثَّابِتِ، وَہُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/296،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں
          سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، (۱)کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے، (۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
          الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے؛کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم متداول کتبِ فقہ کا حوالہ ذکر کریں۔
          مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کاروائی کی․ وھُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/298،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کی خوراک کھانے کا حکم
          سوال: چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا
          الجواب: چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لاِٴنَّ فِیْہِ تَخْصِیْصُ الزَّمَانِ وَالنَّوْعِ بِلاَ مُخَصِّصٍ، یَدُلُّ عَلَیْہِ مَا فِي الْبَحْرِ(:2/159) البتہ عوام کے لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما في الھندیہ: وَلاَ یُبَاحُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَةُ ثَلاَثَةَ أیَّامٍ فِي أیَّامِ الْمُصِیْبَةِ وَاذَا اتَّخَذَ لاَ بَأسَ بِالْأکَِْ مِنْہُ، کذا في خِزانةِ المفتین․5/380․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/299، مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
 صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت
          سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں؛ اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
          الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامُ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی؛ بلکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ ۲۸/ صفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، مفتی عبدالرحیم فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ ۲۶/صفر ۱۱ھ دو شنبہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، ۲۸/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)
          اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۲۸/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم :2/84،جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ، وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة: 2/68،69،دارالاشاعت)
          حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرت المصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں کہ
          ” ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام” ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا“۔(سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، علالت کی ابتداء: 3/156،کتب خانہ مظہری، کراچی)
          سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ” صفر / ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا“ ۔(سیرة النبی :2/115،اسلامی کتب خانہ)
          اسی کے حاشیہ میں ”علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ“ لکھتے ہیں:
          ”اس لیے تیرہ (۱۳) دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ ( حاشیہ سیرة النبی: 2/114،اسلامی کتب خانہ)
          سیرة خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ” ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی“۔ (سیرت خاتم الانبیاء ، ص:126، مکتبة المیزان،لاہور)۔
خلاصہٴ بحث
          اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔
          لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور قدرت بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔(۴)

از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏، استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو:
          عَنْ أبي ھُرَیْرَةَ رضي اللّٰہُ عنہ قال: قال النبيُّ ﷺ :”لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)
          مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔
ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ
          ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “․
          ترجمہ:”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا ،میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا“۔
          اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے،طریقہٴ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ؛اس لیے سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری دی ہے۔
          تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث موضوع ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے؛ چناں چہ ائمہٴ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
           چناں چہ ملا علی القاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ لَا أصْلَ لَہ“․(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبریٰ، حرف المیم، رقم الحدیث: 437،2/324،المکتب الإسلامي)
           اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال القاري في الموضوعات تبعاً للصغاني: ”لَا أصْلَ لَہ“․ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم، رقم الحدیث:2418، 2/538،مکتبة العلم الحدیث )
          اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال الصغاني: ”موضوع“․ وکذا قال العراقي․ (الفوائد المجموعة في أحادیث الضعیفة والموضوعة للشوکاني، کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیة والعبادات في الشھور، رقم الحدیث: 1260،ص:545، نزارمصطفیٰ الباز، مکة المکرمة)
          اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          وکذا (أي: موضوع) ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قزویني، وکذا قال أحمد بن حنبل:اللآلیٴ عن أحمد ومما تدور في الأسواق ولا أصل لہ․ (تذکرة الموضوعات للفتني،ص:116، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
          فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ :
          میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟․․․․․تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی؛ جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے؛حالاں کہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے(۵/۴۶۱)۔
          نمبر: ۲   اس منگھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
          نمبر : ۳  محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا؛ اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا؛ چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
          خلاصہٴ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
 ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت
          ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو روزہ رکھنے کا شرعی حکم
          حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ،جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔
          سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
          جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس (روزہ) کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی؛ کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم
          اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قُل اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ﴾ دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ﴿ قُل ادْعُوا اللّٰہَ أوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ دوآیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
          اس طریقہٴ نماز کی تخریج کے بعدحضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔
          وہ شرائط یہ ہیں:
          (1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لیے کیا جاتا ہے۔
          (2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
          (3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
          (4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
          (5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام: 5/ 103، 104، إدارة القرآن کراتشي)
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم
          سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام (کھانا کھلانا) کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
          جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)
صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم
          سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کے اعمال شریعت میں جائزہیں یا نہیں؟
          الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد:2/302، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا
          سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دار“ ان ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے؛ کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاوٴ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل ِ صحت کیا تھا؛ مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں غیرمعمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تومعلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارو مدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔
          الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟
          ب:جاہل کاریگروں کی ایذاء رسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کا فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟
          ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟
          د: حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟
          الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں؛ البتہ شدتِ مرض کی روایت ”مدارجُ النبوة“ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے۔
          یہود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔
          (الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں (ہوتا) ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر (ہوتا)ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسی کفر و شرک ہے؛ اس لیے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روز غسل ِصحت (کرنا) ثابت نہیں ہے،(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، (نیز!) بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
          (ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
          (ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)
          (د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3/ 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
          سوال:ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
          الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے؛ اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1/360، ایچ ایم سعید)
صفر کے آخری بدھ کو چُری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے
          سوال: ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ”ماہنامہ النصیحہ“ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) و خیرات یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟
          الجواب: چوں کہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے۔ لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ”انہوں نے چُری مانگی “ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لِعَدَمِ ثُبُوْتِ ہَذا الْحَدِیْثِ فِي کُتُبِ الأحَادِیْثِ وَلاَ بِالاسْنَادِ الثَّابِتِ، وَہُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/296،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں
          سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، (۱)کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے، (۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
          الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے؛کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم متداول کتبِ فقہ کا حوالہ ذکر کریں۔
          مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کاروائی کی․ وھُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/298،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کی خوراک کھانے کا حکم
          سوال: چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا
          الجواب: چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لاِٴنَّ فِیْہِ تَخْصِیْصُ الزَّمَانِ وَالنَّوْعِ بِلاَ مُخَصِّصٍ، یَدُلُّ عَلَیْہِ مَا فِي الْبَحْرِ(:2/159) البتہ عوام کے لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما في الھندیہ: وَلاَ یُبَاحُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَةُ ثَلاَثَةَ أیَّامٍ فِي أیَّامِ الْمُصِیْبَةِ وَاذَا اتَّخَذَ لاَ بَأسَ بِالْأکَِْ مِنْہُ، کذا في خِزانةِ المفتین․5/380․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/299، مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
 صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت
          سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں؛ اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
          الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامُ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی؛ بلکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ ۲۸/ صفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، مفتی عبدالرحیم فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ ۲۶/صفر ۱۱ھ دو شنبہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، ۲۸/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)
          اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۲۸/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم :2/84،جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ، وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة: 2/68،69،دارالاشاعت)
          حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرت المصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں کہ
          ” ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام” ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا“۔(سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، علالت کی ابتداء: 3/156،کتب خانہ مظہری، کراچی)
          سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ” صفر / ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا“ ۔(سیرة النبی :2/115،اسلامی کتب خانہ)
          اسی کے حاشیہ میں ”علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ“ لکھتے ہیں:
          ”اس لیے تیرہ (۱۳) دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ ( حاشیہ سیرة النبی: 2/114،اسلامی کتب خانہ)
          سیرة خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ” ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی“۔ (سیرت خاتم الانبیاء ، ص:126، مکتبة المیزان،لاہور)۔
خلاصہٴ بحث
          اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔
          لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور قدرت بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔
Read More

عمرہ پیکج دستیاب ھیں | Global Hajj & Umrah Services Pvt Ltd

بدھ, اکتوبر 10, 2018 0
Umrah packages available Starting from
Rs 85000/-
Budget,
Economy,
3 Star,
5 Star

Global Hajj & Umrah Services Pvt Ltd.
051-5194608-9
03321502611

Global Hajj & Umrah Services Pvt (Ltd)

Chief Executive:

Dr. Tahir Mehmood

Mob# 0300-8652839


Lahore Office:

Off#3, First Floor, Latif Center,
Main Boulevard, Gulbarg Lahore.
Tel: +92 42 3578141719
Cell# +92 337 1426292 (Mr. Shafiq Khalid)

Islamabad/Rawalpindi Office:

Off# 7, First Floor, Faizan Ar 

Global Hajj & Umrah Services Pvt (Ltd)

Chief Executive:

Dr. Tahir Mehmood

Mob# 0300-8652839


Lahore Office:

Off#3, First Floor, Latif Center,
Main Boulevard, Gulbarg Lahore.
Tel: +92 42 3578141719
Cell# +92 337 1426292 (Mr. Shafiq Khalid)

Islamabad/Rawalpindi Office:



Read More

میں شیعہ کیو ں نہیں ھوا۔۔۔ اک نو مسلم عبد الرحیم گرین کی گفتگو

بدھ, اکتوبر 10, 2018 0

عبد الرحیم گرین ایک بہت متاثر کن اور متحرک نو مسلم اسپیکر ھیں برٹش سلطنت زیر کنٹرول علاقہ دارالسلام تنزانیہ میں ایک برٹش فیملی میں پیدا ہوئے. ان کے والد، گیین گرین ایک نوآبادیاتی منتظم تھے. بعد میں انہوں نے 1976 میں بارکلیز بینک میں شمولیت اختیار کی اور مصری بارکلیز بینک قائم کرنے کے لئے مصر کو بھیجا گیا. جب عبدالرحیم کا خاندان برطانیہ واپس چلا گیا تو، وہ رومن کیتھولک موننچک بورڈنگ سکول، امپلورتھتھ کالج میں بھیج دیا گیا اور لندن یونیورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کرنے لگا. یہ وہاں تھا کہ اس نے واقعی یہ سوال شروع کیا تھا کہ زندگی کس بارے میں تھی. برطانوی تعلیم کے نظام اور eurocentricity کی طرف سے ناپسندیدہ، انہوں نے دنیا کے دوسرے لوگوں کی تاریخ، مختلف مذہبی صحیفیات اور فلسفہ کی ایک ذاتی مطالعہ شروع کر دیا. "مصر میں رہنے کے بعد اور کچھ مہنگا کھنگالیں دیکھا جو صرف آثار قدیمہ مندوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، میں نے تاریخ کی مغرب کی تفسیر کو مکمل طور پر غلط قرار دیا. گرین کہتے ہیں، "میں نے تقریبا تین سالوں کے لئے بدھ مت کا تجربہ کیا تھا. وہ قران کی طرف متوجہ تھے. یہ وحی کی بات ہے کہ یہ تھا اور اب بھی ایک الہی کتاب ہے. اس کے علاوہ وہ بچپن سے عیسائیت پر مختلف نظریات سے مطمئن نہیں تھے.
Read More

بدھ، 12 ستمبر، 2018

*دنیا کو انتظامی امور کا تصور دینے والے حضرت عمر فاروق*

بدھ, ستمبر 12, 2018 0
*انتحاب;: سید مدبر شاہ*

*دنیا کو انتظامی امور کا تصور دینے والا حضرت عمر فاروق*


 *ﺣﻀﺮﺕ سیدنا ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ :*

*🍀 ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔*

*🍀 ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*

*🍀 ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ*

*🍀 ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.*

*🍀ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔*

*🍀 ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔*

*🍀 ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔*

*🍀 ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔*

*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔*

*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*

*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ*

*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔*

*🍀 ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ نگرانی  ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔*

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :

*’’ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘*

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ

*’’ ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘*

🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔

🍀 ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

🍀 ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔

🍀ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔

🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

🍀 ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

🍀ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔

🍀 ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.

🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔
"ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔"

🍀ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔
"ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

🍀 ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ
*’’ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ...!*

🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ،

🍀 *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔*

🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ...!

🍀 ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ ...!

🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
*’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘*

🍀 ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :
’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ
ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞ ﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

🍀 ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!

🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ...!

🍀 ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ
ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...!

ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :
’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :

’’ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ  (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
" ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا ۔۔۔۔۔۔۔
   
*جزاک اللہ خیرا کثیرا.*
Read More

اتوار، 9 ستمبر، 2018

🌺قرآن مجید اور حدیث سیکھنے کی فضیلت🌺

اتوار, ستمبر 09, 2018 0
🌺قرآن مجید اور حدیث سیکھنے کی فضیلت🌺

        ☘ لیکچر 1☘

🌷قرآن کی روشنی میں علم کی فضیلت🌷

🌻اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 🌻

💦(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں💥

💦سورۃ الزمر آیت 9💦

💥پڑھو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی- پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیاجسے وہ نہ جانتا تھا💥

💦سورۃ العلق آیت 1 تا 6💦

💥جو لوگ تم میں سےایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بلند درجات عطا فرمائیں گے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے💥

💦سورۃ المجادلہ آیت 11💦

💥اللہ تعالیٰ سے تو اس کے علم والے بندے ہی ڈرا کرتے ہیں- یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور غالب ہے💥

💦سورۃ فاطر آیت 28💦

💥پھر کیوں نہ ہر فرقے میں سے کچھ لوگ نکلے کہ دین میں سمجھ پیدا کریں اور واپس آ کر اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ بچتے رہیں💥

💦سورۃ التوبہ آیت 122💦

🌷 اللہ کی بھلائی انسان سے کیا ہے🌷

💥 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ جس کے لیے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین میں سمجھ عطا کرتے ہیں💥

   💦ابنِ ماجہ💦

🌷قرآن کا علم سیکھنے والا دوسرے تمام علوم سیکھنے والوں سے افضل ہے🌷

💥حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے💥

          💦بخاری💦

     🌷قرآن کے علوم🌷

🌻 1- قراءت

🌻 2- تجوید

🌻 3- ترجمہ

🌻 4- تفسیر

یہ تمام علوم قرآن سیکھنے میں آتے ہیں 

🌷قرآن کا علم سیکھنے والے کے لیے اللہ جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں🌷

💥حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص علمِ دین سیکھنے کے لیے سفر کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں💥

          💦مسلم💦

   🌷قرآن کا علم سیکھنے والے کو چار نعمتوں سے اللہ نوازتے ہیں🌷

💥حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب کچھ لوگ اللہ کے گھر(مسجد) میں جمع ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان کے پاس کرتے ہیں جو اس کے پاس ہیں (یعنی فرشتے) اور (یاد رکھو) جس شخص کو  اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اس کو آگے نہیں کر سکے گا💥

         💦مسلم 💦

🌻1- ان پر سکینت (سکون) نازل ہوتی ہے 

🌻2- ان پر اللہ کی رحمت سایہ فگن ہوتی ہے 

🌻3- فرشتے ان کے گرد احتراماً کھڑے رہتے ہیں 

🌻4- اللہ ان کا ذکر فخریہ فرشتوں کے سامنے کرتے ہیں 

🌷قرآن کا علم حاصل کرنے والوں سے فرشتے محبت کرتے ہیں🌷

💥حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک سرخ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے عرض کیا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مبارک ہو طالب علم کو، طالب علم کو فرشتے اپنے پروں سے گھیر لیتے ہیں پھر وہ ایک دوسرے پر سوار ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں فرشتے طالب علم سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ جو علم، طالب علم حاصل کرتا ہے فرشتے اس علم سے محبت کرتے ہیں💥

      💦احمد، طبرانی💦

🌷قرآن کا علم سیکھنے کے لیے مسجد (یا مدرسہ) جانے والے کو ایک حج کا ثواب ملتا ہے🌷

💥حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص صرف اس لیے مسجد (یا مدرسہ) گیا تا کہ نیکی سیکھے یا نیکی سکھائے اس کے لیے مکمل حج کا ثواب ہے"💥 

       💦طبرانی💦

🌷قرآن کی 10 آیات سیکھنا نفع بخش سودا ہے🌷

💥حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے فلاں قبیلے سے سودا خریدا ہے اور اس میں مجھے اتنا زیادہ فائدہ ہوا ہے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تجھے اس سے زیادہ نفع بخش سودا نہ بتاؤں؟ آدمی نے عرض "کیا ایسا سواد بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص قرآن مجید کی 10 آیات سیکھتا ہے وہ اس سے زیادہ نفع پاتا ہے- وہ آدمی گیا اور قرآن کی 10 آیات سیکھیں اور واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا💥

      💦ابن ماجہ💦

🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن کا علم سیکھنے والوں کو وصیت🌷

💥حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے جب انہیں دیکھو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل کرنے کی مبارک دینا اور انہیں تلقین کرنا (یعنی علم سکھانا)💥

         💦ابنِ ماجہ💦

🌷قرآن سیکھنے والوں کی وجہ سے ہی دنیا میں خیروبرکت ہے🌷

💥حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے وہ سب ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر کرنے والے کے، اور جس سے وہ محبت کرے یا علم سیکھنے والے یا عالم کے💥

     💦ابنِ ماجہ 💦

🌷قرآن مجید کا علم حاصل کرنا تمام عبادات سے افضل ہے🌷

💥حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے علم کی کثرت، عبادت کی کثرت سے زیادہ عزیز ہے اور تم میں سے بہتر دین اس کا ہے جس میں پرہیزگاری ہے💥

        💦 بزار💦

🌷قرآن کا علم سیکھنے والوں کے لیے فرشتے اپنے پر پھیلاتے ہیں اور زمین و آسمان کی ہر چیز ان کے لیے استغفار مانگتی ہے🌷

💦حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص (قرآن کے) علم کی خاطر سفر طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اپنے پر (اس کے قدموں کے نیچے) بچھاتے ہیں- طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہر چیز حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں💥

       💦ابن ماجہ💦

🌷قرآن کا علم سیکھنے کے لیے گھر سے نکلنے والے کا درجہ جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے🌷

💥حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے "جو شخص بھلائی سیکھنے یا سکھانے کی غرض سے میری اس مسجد میں آئے اس کا درجہ مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے اور جو شخص اس کے علاوہ کسی دوسرے (دنیاوی) مقصد کے لیے آئے اس کی مثال اس شخص کی ہے جس کی نظر دوسرے کے مال پر ہو💥 


         💦ابن ماجہ💦

🌷قرآن کا علم حاصل کرنے والا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے اپنا حصہ پاتا ہے🌷


             💦طبرانی💦

☘ان لیکچرز کو آگے ضرور سینڈ کریں، قرآن کا علم سیکھنے والے دنیا کے خوش قسمت لوگ ہیں☘

       🌹مجھے دعاؤں میں یاد رکھیےگا🌹
Read More

Post Top Ad

Your Ad Spot