مئی 2016 - مکتبہ فیوض القرآن

یہ بلاگ اسلامی معلومات کے ڈیجیٹل اور فزیکل وسائل تک رسائی کےلیے مواد مہیا کرتا ھے۔ ھمارے واٹس ایپ پر رابطہ کرٰیں 00-92-331-7241688

تازہ ترین

Sponser

Udemy.com Home page 110x200

Translate

ہفتہ، 28 مئی، 2016

مُلا منصور کی وصیت

ہفتہ, مئی 28, 2016 0

مُلا منصور کی وصیت

  • 24 مئ 2016


1- جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آپ سے کہے کہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں اُس دِن سے اپنی وصیت لکھنی شروع کر دینا۔
2- جب اِنھی میں سے کوئی کہے کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو یہ مت کہنا کہ اِس بھائی چارے کے اب تک کتنے ڈالر ہوئے۔ پاکستانی حساس قوم ہیں۔
3- کوئٹہ سے کبھی گاڑی کرائے پر مت لینا۔ خلیفہ مُلاّ عمر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر سفر کرنا۔ طبعی عمر پاؤ گے۔ بلکہ شہادت کے کئی سال بعد بھی لوگ زندہ ہی سمجھیں گے۔
4 - پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں سے بچ کر رہنا۔ اگر ڈرون سے بچ گئے تو یہ دانشور چوم چوم کر مار دیں گے۔ جب تک آپ زندہ ہیں آپ کو تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو کہیں گے شہادت کے بعد کہیں گے امن کی آخری اُمید دم توڑ گئی۔ اچھے خاصے مجاہد کو گاندھی بنا دیں گے یہ دفاعی تجزیہ نگار ۔
5- ہر ریاست کی پالیسی دوغلی ہوتی ہے لیکن یہ ہمارے میزبان بھائی ایک ہاتھ سے فاتحہ پڑھتے ہیں، دوسرا ہاتھ خنجر پر رکھتے ہیں۔
6- میرا خیال تھا ہمارے پاکستانی دوست لطیفے بہت اچھے سُناتے ہیں۔ ایک پنجابی مجاہد نے ایک دفعہ بتایا کہ ہمارے چوکیدار رات کو صدا لگاتے ہیں’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔ اب پتہ چلا کہ کم بختوں نے ایک جگت کو قومی دفاعی پالیسی بنا لیا ہے۔
7- اپنے پاکستانی بھائیوں سے کبھی یہ نہ کہنا کہ ہم افغان تو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تم کیا لُچ تل رہے ہو۔ بتایا تھا نہ حساس قوم ہیں ادارے بھی حساس ہیں خفا ہو جاتے ہیں ۔

8- حساسیت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی آپ کی شہادت ہو گی تو پہلے سکتے میں آ جائیں گے پھر کہیں گے ہماری خود مختاری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں گھُس کر مارا، پھر کہیں گے ہمارے گھر میں تو تھا ہی نہیں اُُس کے بعد پھر کہیں گے لیکن تمہاری جرات کیسے ہوئی ہمارے گھر میں گھسنے کی۔ تو آپ نے دیکھا آپ کی جان جائے گی اور اِن کی خود مختاری پِھر دنیا میں اٹکھیلیاں کرتی پھرے گی اور کہے گی پتہ نہیں مجھے دُنیا والے اِتنا کیوں چھیڑتے ہیں۔
9- یہ جو پاکستان کے علما و مشائخ اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے والی پارٹیاں ہیں اِن سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ساری عمر آپ کے کانوں میں ’شہادت ہے مطلوب و مقصود و مومن‘ گنگناتے رہیں گے جب وقت شہادت آئے گا تو اِن کی گنگا جمنی تہذیب جاگ اُٹھے گی اور کہیں گے’نہیں حضور پہلے آپ‘۔
10- اگلا امیر منتخب کرتے وقت اِن کے مشورے مت سُننا، کچھ سال پہلے ہمارے پاکستان بھائی خالد سجنا کو امیر منتخب کروانے والے تھے کہ کسی نے گانا لگا دیا ’سجنا وی مر جانا‘۔ وہُ امیر نہ بن سکے۔ دنیا کی بہت سی قومیں لہو و لعب میں مبتلا ہیں لیکن یہ کیسی قوم ہے جس نے گانوں اور لطیفوں کو ایک مکمل ضابطۂ حیات بنا رکھا ہے۔
11- سرحدی علاقوں، پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے کے دِن گئے۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے بھی بہت گنجان ہو گئے اب پکی پناہ کے لیے ڈی ایچ اے سٹی میں ایک پلاٹ بُک کراؤ وہاں تمہیں امریکہ کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔
Read More

جمعہ، 27 مئی، 2016

اصل بیانیہ (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

جمعہ, مئی 27, 2016 0

Rangonoor 546 - Saadi kay Qalam Say -Muhabbat ka zamana aa gia

اصل بیانیہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 546)
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…چمنستان عشق میں ایک نیا پھول کھلا ہے…جہادی کتب خانے میں ایک وقیع اضافہ ہوا ہے…دیوانوں کی دنیا میں ایک نئی بہار پھوٹی ہے…شہداء کرام کا معطر خون قلم و قرطاس پر جگمگایا ہے… عزم و عزیمت کے ساغر میں ایک نئی مستی اُبھری ہے… دلیل، حجت اور برہان کی ایک دلکش روشنی چمکی ہے… اردو ادب میں ایک نیا نگینہ جڑا ہے… اور ہاں! حسن و عشق کے جام میں ایک نیا سرور اُٹھا ہے… اہلِ ایمان کو مبارک! خود فریبی، دین فروشی اور ضمیر کُشی کے متعفن بیانیوں کے درمیان… ایک معطر، اصلی اور حقیقی بیانیہ منظر عام پر آیا ہے…نام ہے ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘ … بے شک یہ حق کا سلام اور محبت کا پیام ہے…
محبت کا بالآخر رقص بے تابانہ کام آیا
نگاہ شرمگیں اُٹھی سلام آیا پیام آیا
ادب اے گردش دوراں! کہ پھر گردش میں جام آیا
سنبھل اے عہد تاریکی کہ وقتِ انتقام آیا
نہ جانے آج کس دُھن میں زباں پہ کس کا نام آیا
فضاء نے پھول برسائے، ستاروں کا سلام آیا

سبحان  اللہ! کیسا میٹھا نام ہے، جہاد فی سبیل اللہ…زبان کے ساتھ دل بھی پکار اُٹھتا ہے الجہاد، الجہاد… غزوہ بدر کا غبار اور غزوہ احد کا خون … اس سے بڑھ کر حسن کا غازہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ … بے شک جہاد ایمان ہے… بے شک جہاد محکم فریضہ ہے…بے شک جہاد خوشبودار سنت ہے …بے شک جہاد رحمت ہے…بے شک جہاد عشق ہے… بے شک جہاد روشنی ہے…بے شک جہاد محبت بھی ہے اور محبوبیت بھی… بے شک جہاد مغفرت ہے… بے شک جہاد حسن ہے…بے شک جہاد عزت ہے… بے شک جہاد زندگی ہے…بے شک جہاد عزیمت ہے… بے شک جہاد ترقی ہے…بے شک جہاد نجات ہے… بے شک جہاد آزادی ہے… بے شک جہاد صحت، غنیمت اور وقار ہے… بس اسی ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی دعوت اور ترجمانی کے لئے ایک نئی کتاب آ رہی ہے… نام ہے ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘ اہل ایمان یقیناً اس سے خوشی اور دلیل پائیں گے … مگر کئی لوگوں کو اس کتاب سے تکلیف بھی ہو گی… انہیں درد ہو گا کہ اُن کے باطل قلعے ڈھیر ہو گئے … اور اُن کے بزعم خویش مضبوط براہین… خود اُن کے منہ پر طمانچے برسانے لگے…
جو اُٹھا ہے درد اُٹھا کرے
کوئی خاک اس سے گلہ کرے
جسے ضد ہو حسن کے ذکر سے
جسے چڑ ہو عشق کے نام سے
٭…٭…٭
جہاد کے خلاف ہر زمانے میں طرح طرح کے فتنے اُٹھتے رہے ہیں… یہ فتنے ابتداء میں سمندر کی جھاگ کی طرح یوں پھیلتے ہیں کہ… حقیقت اُن کے تلے دب جاتی ہے… مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جھاگ نے ختم ہونا ہے اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے اس نے باقی رہنا ہے…جہاد میں تو انسانیت کے لئے نفع ہی نفع ہے… جہاد میں صرف مسلمانوں کا ہی نہیں کافروں کا بھی نفع ہے… ان میں سے کتنوں کو جہاد کی بدولت ایمان نصیب ہوتا ہے… اور کتنوں کو اسلامی نظام کا عدل و انصاف میسر آ جاتا ہے… جہاد میں صرف انسانوں کا ہی نہیں زمین کی تمام مخلوقات کا نفع ہے… اس لئے جہاد نے باقی رہنا ہے، موجود رہنا ہے… اور اسے کوئی نہیں مٹا سکتا… جہاد کے خلاف اُٹھنے والے فتنے جھاگ کی طرح فنا ہو جاتے ہیں…ہم نے جب ’’دعوت جہاد‘‘ کے میدان میں قدم رکھا تھا تو اس وقت جہاد کے خلاف بعض بڑے اعتراضات ہر زبان پر تھے…مگر الحمد للہ جہادی دعوت کے دو دو جملوں نے ان طوفانوں کو بے آبرو کر دیا… حتی کہ آج ان اعتراضات کو کوئی اپنی زبان پر نہیں لاتا… مگر چونکہ شیطان اپنے کام سے نہیں تھکتا… اور نفاق ہر زمانے میں کروٹ بدل کر نئی شکل میں اُٹھتا ہے…اس لئے جہاد پر اعتراضات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے… ایک اعتراض کو توڑا جاتا ہے تو اس کی جگہ نیا اعتراض پیش کر دیا جاتا ہے… اس لئے ’’دعوت جہاد‘‘ کی ضرورت مسلسل رہتی ہے… اور یہ بڑی مہارت کا کام ہے… کیونکہ جہاد کے دشمن بہت ہٹ دھرم ہیں…ان کو جہاد کے خلاف جب کوئی دلیل ملتی ہے تو وہاں ان کے نزدیک جہاد کا ایک ہی معنی متعین ہوتا ہے… یعنی قتال فی سبیل اللہ…اسی طرح جب انہوں نے جہاد یا مجاہدین کو گالی دینی ہو تو وہاں بھی ان کے نزدیک جہاد کا معنی صرف قتال ہوتا ہے… اسی طرح جب انہوں نے جہاد پر پابندی لگانی ہو… یا مجاہدین کو پکڑنا ، مارنا یا ستانا ہو تو وہاں بھی ان کے نزدیک جہاد کے ایک ہی معنی متعین ہوتے ہیں… یعنی قتال فی سبیل اللہ …لیکن جب انہوں نے جہاد کے بارے میں شبہات ڈالنے ہوں… یا مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہوتو  وہاں اُن کے نزدیک جہاد کے ہزاروں مطلب منہ کھول کر سامنے آ جاتے ہیں… اور وہ ہر عمل کو جہاد قرار دے کر جہاد کے فضائل چوری کرتے ہیں… گالیاں، گولیاں ، جیلیں ، پھانسیاں ، میزائل اور پابندیاں… چھوٹے جہاد کے لئے… اور ہر طرح کا اِکرام بڑے جہاد کے لئے؟ پھر چونکہ نام کے ان مسلمانوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ کبھی جہاد پر نہیں نکلیں گے… اس لئے وہ ہر وقت جہاد کے خلاف شبہات گھڑتے اور ڈھونڈتے رہتے ہیں…ایسے حالات میں جہاد پر مسلسل بیانات، مسلسل مضامین اور مسلسل کتابوں کی ضرورت ہے تاکہ ہر زمانے کے جہاد مخالف فتنوں کو توڑا جا سکے … عزیز مکرم حضرت مولانا طلحہ السیف کی حالیہ تصنیف ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘ اس سلسلے میں ایک اہم اور قیمتی پیش رفت ہے…
٭…٭…٭
جہاد اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… اور ’’دعوت جہاد‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہونے والی ایک انمول نعمت ہے… جہاد انسانی فطرت کا اہم ترین تقاضا ہے… اس لئے جس میں جتنی انسانیت ہوتی ہے وہ اسی قدر جہاد کو سمجھتا ہے…جہاد اسلامی فطرت کا اہم ترین سبق ہے…پس جس کا اسلام سلامت ہو  وہ جہاد فی سبیل اللہ کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے… دل میں جب ایمان آتا ہے تو ساتھ جہاد بھی آتا ہے … اور دل میں جب غیرت ایمانی جوش مارتی ہے تو وہ مسلمان کو ’’مجاہد ‘‘ بنا دیتی ہے… دعوت جہاد بھی جہاد کا ایک بلند مقام ہے… اور یہ مقام قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے… طلحہ السیف کی خوش نصیبی کہ اسے بچپن کی عمر سے جہاد فی سبیل اللہ کے عملی میدان ہاتھ آ گئے… خون ریز معرکے ، خون جلاتے محاصرے اور خونی بارڈر…بار بار موت کا سامنا… اور خطرات سے آنکھ مچولی…
جہاد کا میدان دراصل …حسن و عشق کا بازار ہے… جو ان محاذوں کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے … اسے باہر کی دنیا ’’وحشت کدہ‘‘ لگتی ہے … محاذ جنگ میں عجیب سرشاری اور بے فکری ہوتی ہے… جبکہ ’’دعوت جہاد‘‘ کا کام بہرحال ان لذتوں سے خالی ہے… طلحہ کی شاید خواہش تھی کہ وہ محاذوں کی لذتوں میں کھویا رہے… مگرا س کے بڑے چاہتے تھے کہ وہ عشق کی الجھنوں بھری ایک اور منزل پر بھی قدم رکھے… یہ منزل ہے ایک عملی مجاہد کا جہاد پر قائم رہتے ہوئے ’’داعی جہاد ‘‘ بننا…
عشق فنا کا نام ہے ، عشق میں زندگی نہ دیکھ
جلوۂ آفتاب بن ذرہ میں روشنی نہ دیکھ
شوق کو رہنما بنا ہو چکا جو کبھی نہ دیکھ
 آگ دبی ہوئی نکال آگ بجھی ہوئی نہ دیکھ
موت و حیات میں ہے صرف ایک قدم کا فاصلہ
اپنے کو زندگی بنا ، جلوۂ زندگی نہ دیکھ
طلحہ السیف کو دعوت جہاد کی طرف کھینچنے کا مقصد… اس کی جان بچانا نہیں تھا… جان تو ایمان اور جہاد میں ہے… اور نہ ہی یہ مقصد تھا کہ وہ خطیب و مصنف کہلائے…خطیب اور مصنف بہت ہیں… اُمت کو باعمل کرداروں کی ضرورت ہے… بس مقصد یہ تھا کہ وہ جہاد کا بھی حق ادا کرے اور دعوت جہاد کا بھی… تاکہ ’’قَاتِلْ ‘‘ اور ’’حَرِّضْ‘‘ کا نصاب مکمل ہو…
جہاد کی چاشنی اور بے فکری میں کھوئے ہوئے … جہاد کے عشق میں مدہوش ایک دیوانے کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کرنا… اور اس کے ہاتھ میں قلم پکڑانا آسان کام نہیں تھا… مگر حضرت اباجی ؒ موجود تھے …ایک قابل رشک متوکل علی اللہ فقیر… اور صاحب فراست ہستی…وہ کہتے نہیں تھے مگر منوا لیتے تھے…وہ بعض ایسے رازوں کو سمجھتے تھے جن کو بڑے بڑے لوگ نہیں پا سکتے… ان کی خاموش اعانت نے ایسی قوت دی کہ طلحہ کو سمجھانا آسان ہو گیا…اور یوں اُمت مسلمہ کو ایک باعمل داعی مل گیا…
آج جب طلحہ السیف کی کتاب ’’جہاد کا بیانیہ‘‘ شائع ہونے جا رہی ہے تو خیالات میں حضرت ابا جی بار بار تشریف لاتے ہیں… شکر سے آبدیدہ دلکش مسکراہٹ کے ساتھ…اپنے نئے ’’صدقہ جاریہ‘‘ کی خوشی میں سرشار… جیسے فرماتے ہوں… اے میرے بیٹو! میں نہ تمہیں کارخانے دے گیا نہ آف شور کمپنیاں…کارخانے اور کمپنیاں مٹ جاتی ہیں …مگر دین کے پھول…اور قرآن کے موتی سدا بہار ہیں… سدا بہار…بہت شکریہ پیارے ابا جی! بہت پیارے بہت محسن ابا جی…
٭…٭…٭
دعوت وہی مقبول ہوتی ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو … قرآن مجید ہمیں دو باتیں تاکید سے سکھاتا ہے … (۱) توازن (۲) حدود کی پاسداری … شریعت کا کوئی حکم اس طرح بیان کرنا کہ اس سے شریعت کے دیگر احکامات کی تنقیص یا توہین ہو… یہ ہرگز جائز نہیں…کسی چیز کی دعوت اس طرح سے دینا کہ اس میں مبالغہ کر کے…اس کی شریعت میں مقرر کردہ ’’قدر‘‘ کو بڑھا دیا جائے یہ بھی درست نہیں… اسی طرح کسی ایک حکم کے احکامات اور فضائل دوسرے احکامات کے ساتھ جوڑنا بھی دین کی کوئی خدمت نہیں…دعوت خود ایک عبادت ہے نہ کہ ٹھیکیداری…اور عبادت وہی قبول ہوتی ہے جو شریعت کی حدود میں قید ہو…جہاد کی دعوت خصوصاً اس زمانے میں بہت محنت اور احتیاط مانگتی ہے… ہم نے کئی افراد کو دیکھا کہ دعوت جہاد کے لئے اُٹھے مگر شدید جارحانہ فتوے بازی میں مبتلا ہو گئے…انہوں نے سب سے پہلے ’’فرض عین ‘‘ کا مسئلہ اُٹھایا اور ہر طرف تفسیق کے تیر برسا دئیے کہ … فلاں بھی فاسق، فلاں بھی فاجر… ایسے افراد کی دعوت نہ چل سکی بلکہ اکثر کو دیکھا کہ وہ خود بھی جہاد میں نہ چل سکے…اور اپنے فتووں کا مصداق بن گئے… بعض افراد نے جہاد کی دعوت اس انداز میں شروع کی کہ… دین کے باقی کاموں کا نعوذ باللہ مذاق اُڑانے لگے… اور جہاد کو ہی ہر عمل کی اصل غایت قرار دینے لگے… یہ لوگ بھی آگے جا کر پھنس گئے…کیونکہ وہ صریح غلطی پر تھے… اسی طرح بعض لوگوں نے جہاد کو محض ایک جذباتی اور انتقامی عمل کے طور پر پیش کیا اور کچھ عرصہ خوب دھوم اُڑائی… مگر پھر آگے نہ چل سکے… جہاد دراصل ایک ایسی عبادت ہے… جو سب سے پہلے خود جہاد کے داعی سے عمل اور قربانی مانگتی ہے … جہاد میں حفاظت کا پہلو غالب ہے کہ… جہاد پورے دین اور سب مسلمانوں کا محافظ عمل ہے… اس لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ… جہاد کا نام لے کر دین کے باقی کاموں کی نفی کی جائے…
بہرحال ان مشکل حالات میں دعوت جہاد کے لئے ایک ایسے اسلوب کی ضرورت تھی… جس میں توازن بھی ہو اور حدود کی پاسداری بھی… جس میں علم بھی ہو اور دلیل بھی… جس میں درد بھی ہو اور شفقت بھی …جس میں جذبات بھی ہوں اور براہین بھی… اور جس میں تاکید بھی ہو اور وسعت بھی… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری جماعت کو ’’دعوت جہاد‘‘ کا یہ قرآنی اسلوب نصیب ہوا… اور وحشت و جارحیت کی بجائے اُلفت، محبت اور افہام و تفہیم کے ماحول میں جہاد کی بات سنی اور سنائی جانے لگی… ہم نے لوگوں کے ان سوالات کو نظر انداز کیا جن کا مقصد صرف فتنہ ہوتا ہے… ہم نے مناظرہ کے انداز کو چھوڑ کر درد، فکر اور کڑھن کے اسلوب میں دعوت جہاد رکھی… ہم نے خود کو نہ جہاد کا ٹھیکیدار سمجھا اور نہ قرار دیا…بلکہ مجاہدین کی اصلاح کی بھی بات کی… اور مسلمانوں کے ایمان کو بچانے کی فکر کی… ہم نے جہاد کو اپنا مشن اور مقصد ضرور بنایا مگر اسے اپنی ایسی ’’ضد‘‘ نہیں بنایا کہ… دین کے دیگر کاموں کی عظمت پر کوئی آنچ آئے…جماعت میں…دعوت جہاد کو ایمان اور نماز کے ساتھ جوڑ دیا گیا…دعوت جہاد کے ساتھ مسواک تک کی دعوت شامل کی…اور جہاد کے بارے میں بس اتنا ہی کہناکافی سمجھا جتنا…قرآن و سنت اور اَسلاف نے فرمایا ہے…
توازن، اعتدال اور حدود کی پاسداری کی بدولت… الحمد للہ یہ دعوت مقبول ہوئی…اور دنیا بھر میں پھیلی…اس میں تقریر بھی شامل رہی … اور تحریر بھی…اور پھر تفسیر آیات الجہاد نے…ہر کمی کوتاہی کا الحمد للہ مکمل اِزالہ کر دیا…
آج الحمد للہ جماعت کے پاس مفسرین، خطباء اور مصنفین اہل علم کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود ہے… یہ حضرات جہاد کو شعوری طور پر سمجھتے بھی ہیں…اور سمجھا بھی سکتے ہیں…مولانا طلحہ السیف جماعت کے اس ’’دعوتی لشکر‘‘ کی ایک جامع شخصیت ہیں…انہوں نے ’’فہمِ جہاد‘‘ اور ’’تفہیمِ جہاد‘‘ کو موضوع بنا کر چند مضامین… ’’جہاد کا بیانیہ ‘‘کے نام سے لکھے…یہ مضامین الحمد للہ مقبول ہوئے اور امت کی بہترین رہنمائی کا ذریعہ بنے …ایسے اہم اور سنجیدہ موضوع پر…ایسی دلکش اور پُرکشش تحریر… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور جہاد کی کرامت ہے…آج ساری دنیا کے غامدی مل کر بھی …جہاد کے خلاف ایسی ایک تحریر نہیں لکھ سکتے …تقاضہ بھی تھا اور ضرورت بھی کہ… ان مضامین کو یکجا شائع کیا جائے…الحمد للہ اب یہ کتاب تیار ہے…اہل ایمان سے گذارش ہے کہ …جدل کی نیت سے نہیں عمل کی نیت سے پڑھیں…اور اسے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچائیں…

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ


لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
Read More

Post Top Ad

Your Ad Spot