عن ابی ذر رضی اللّٰہ عنہ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: ثلاثۃ، لا یکلمھم اللّٰہ یوم القیامۃ، ولاینظر الیھم، ولایزکیھم، ولھم عذاب عظیم. المنان لایعطی شیئا الا منہ، [والمنفق سلعتہ بعد العصر بالحلف الفاجر۱] والمسبل ازارہ [لا یرید الاالخیلاء۲].(مسلم،کتاب الایمان)
ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں،جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے،نہ ان پر نظرکرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ایک، احسان جتانے والا کہ جب بھی کسی کو کچھ دے، احسان جتائے۔ دوسرا، عصر کے وقت جب بازار ختم ہو رہا ہو،جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔ اور تیسرا، اپنے تہمد کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جس سے اس کا مقصد سوائے تکبر و نخوت کے کچھ نہ ہو۔
شرح حدیث
'لا یکلمھم اللّٰہ' اور 'ولاینظرالیھم' (اللہ ان کا تزکیہ نہیں کرے گا)۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن،بہرحال، ہر انسان اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ آلایشیں لے کر آئے گا۔اللہ ان آلایشوں کو اپنی رحمت سے دور کر دیں گے۔اسی عمل کوتزکیۂ یوم القیامہ کہا گیا ہے۔یہ تزکیہ انبیا کے سوا،کم و بیش،سب انسانوں کا ہو گا۔البتہ،وہ لوگ اس تزکیہ سے محروم رہیں گے،جن کے گناہ ناقابل معافی ہوں گے۔
احسان جتانے والا،قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗرِءَآءَ النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہٗکَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہٗوَابِلٌ فَتَرَکَہٗصَلْدًا لاَّ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ. (البقرہ ۲: ۲۶۴)
''اے ایمان والو،احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو، اس شخص کی مانندجو اپنامال دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ایسے شخص کی مثال یوں ہے کہ ایک چٹان ہو،جس پر کچھ مٹی ہو،پھر اس زور کا مینہ پڑے کہ وہ اس کوبالکل سپاٹ پتھر چھوڑ جائے، ان کی کمائی میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گا۔''
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاکاری کی طرح احسان جتانے اور ایذارسانی سے بھی نیکی اپنا اجر کھو دیتی ہے۔
چنانچہ جو آدمی اس رویے کو اختیار کیے رکھے گا،وہ صدقات اورخیرات کی تمام نیکیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔اسلام کا،اس باب میں،اصول یہ ہے کہ 'بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَّأَحَاطَتْ بِہٖخَطِیْٓءَتُہٗفَ أُولٰٓءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ' (البقرہ ۲:۸۱)''جس نے کوئی برائی کمائی اور اس کے گناہ نے اس کی زندگی کا احاطہ کر لیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔''
عصر کے وقت سے مراد بازار کے خاتمے کا وقت ہے۔قدیم دور میں اور اب بھی دیہاتی معاشرت میں بازار، عام طور سے،اس وقت سمٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔اس موقع پر گاہک اور دکان دار، دونوں عجلت میں ہوتے ہیں۔اس عجلت میں گاہک کے دام فریب میں آ جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔چنانچہ دکان دار ایسے مواقع پر گاہک سے نفع کمانے کے لالچ میں جھوٹی قسم کھا کر زیادہ قیمت پر اپنا مال فروخت کر دیتے ہیں۔یہ تنبیہ اس وقت کے ساتھ بالخصوص،اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر آدمی کو، عام حالات کے مقابلے میں، زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ ان مواقع پر لغزش کھا جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ عام حالات میں بھی،جھوٹی قسم کھا کر مہنگے داموں مال بیچنا، ایک سنگین جرم ہے۔
اس طرح کرنے والا شخص، باطل طریقے سے، اپنے بھائی کا مال کھا تا ہے۔قرآن مجید نے اس سے صاف الفاظ میں روکا ہے: 'وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ.' (البقرہ ۲: ۱۸۸) ''اور ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔'' یہی وہ اصول ہے،جس کی بنا پر،اسلام ہر اس معاشی عمل کو جرم قراردیتا ہے،جو اپنی حقیقت میں باطل قرار پاتا ہو۔اس میں رشوت، دھوکا، چوری، غصب، غلط بیانی، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت،تول میں کمی اور لقطہ(گری پڑی چیز)کی مناسب تشہیر کے بغیر اسے لے لینا، یہ تمام چیزیں 'اکل الاموال بالباطل' میں شامل ہیں۔
قرآن مجید کی رو سے یہ جرم کبائر یعنی بڑے گناہوں میں سے ہے۔چنانچہ،اس طرح کے ایک جرم،یتیموں کے مال میں خیانت اور غصب کے مجرموں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے: 'اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا'(النساء۴: ۱۰)''بے شک،جو لوگ ظلم ونا انصافی سے یتیموں کے مال کھارہے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں بس آگ ہی بھر رہے ہیں،اور وہ ضرور دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔''زیر بحث حدیث میں بھی اس کی یہی سزا بیان کی گئی ہے۔
جھوٹی قسم،اگرچہ،مال کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے،لیکن اس سے کمائی میں برکت نہیں رہتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 'الحلف منفقۃ للسلعۃ ممحقۃ للکسب' (النسائی، کتاب البیوع)''یہ قسم مال کو بیچنے والی،مگر کمائی کو مٹانے والی ہے''۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہی ہے کہ اس ذریعے سے حاصل ہونے والی کمائی برکت سے خالی ہوتی ہے،یعنی یہ کمائی نہ کفایت کرتی ہے اور نہ اس کے ذریعے سے سیری ہی حاصل ہوتی ہے۔
اسبال ازار، یہ اوباشوں کے تہمد پہننے کا ایک خاص طریقہ تھا۔اس قسم کے لوگ کچھ اس طرح تہمد باندھتے کہ وہ لٹک کر زمین پر گھسٹنے لگتا ۔اس تہمد کا کپڑا،عام طور سے،عمدہ اور شوخ رنگ ہوتا،جسے پہن کر یہ لوگ اتراتے ہوئے چلتے۔ہمارے دیہاتوں میں بھی اس قماش کے لوگ ایسے ہی تہمد باندھے،لمبے لمبے قمیص پہنے،گریبان واکیے،ایک کپڑا(پٹکاسا)گلے میں ڈالے،پان کی پیک تھوکتے اور اکڑ کر چلتے نظر آتے ہیں ۔بعض تہذیبوں میں بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد کا لباس بھی ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے لٹکتی،کئی گز لمبی،پشواز اٹھانے کے لیے کئی ملازم مقرر ہوتے۔اس سب کچھ کا مقصد شان وشوکت اور تکبر کے اظہار کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ان احادیث اور کلام عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرز کا لباس عربوں کے ہاں بھی موجود تھا۔تابط شرا کا شعر ہے:
مسبل فی الحی احوی رفل
و اذا یغزو فمع ازل
''وہ قبیلہ میں ہوتا ہے تو مسبلِ ازار(مغرور اور گھمنڈی)،جوانِ رعنا،اور تنو مند اور جب میدانِ جنگ میں اترتا ہے،تو گویا بھیڑیا ہے جو اپنے دشمن کا تیزی سے پیچھا کرتا ہے۔''
یہ لباس جیسا کہ اوپر کی بحث سے واضح ہے، متکبرانہ لباس ہے۔اس کے اسی پہلو کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مناط حکم اصل میں تکبر ہے اور تکبر ہی کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لباس کوممنو ع فرمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ 'فان جر الازارمن المخیلۃ'،''تہمد کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا متکبرانہ افعال میں سے ہے''۔اور 'ان اللّٰہ لا یحب المسبلین' ،'' اللہ اس طرح تہمد لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا''۔ (مسند احمد بن حنبل)
چنانچہ،یہ بات واضح ہوئی کہ یہ لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی وجہ سے ممنوع فرمایا ہے۔اور تکبر کی یہ علت آج بھی اس لباس میں موجود ہے، اس لیے آج بھی اس طرح تہمد باندھنا ممنوع ہو گا۔یہ بات بھی واضح رہے کہ صرف اسی طرح تہمد باندھنا ہی ممنوع ہے،کیونکہ علت تکبر اس کی اسی ہیئت میں پائی جاتی ہے۔اسی طرح اگر یہ علت کسی اور لباس میں پائی جائے گی تو وہ بھی،خود بخود، ممنوع قرار پاجائے گا۔مثلاً ہمارے معاشرے میں تہمد کا لٹکانا ہی ممنوع نہیں ہے،بلکہ وہ خاص طرح کے لمبے اور کھلے قمیص بھی ممنوع ہوں گے،جو اسی مقصد سے پہنے جاتے ہیں،کیونکہ ان میں بھی وہی علت موجود ہے۔
جس لباس میں یہ علت نہیں ہو گی،وہ ممنوع نہیں ہو گا۔مثلاً شلوار اس طرح ٹخنوں سے نیچے اگر لٹک کر زمین پر گھسٹ رہی ہو تو شان و شوکت اور تکبر کے بجائے آدمی کے بے سلیقہ ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے وہ اس حکم کے تحت نہیں آئے گی۔یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ محض کپڑے کا ٹخنے سے نیچے آنا جرم نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ گناہ اخلاقی یا تعبدی امور ہی میں ہوتا ہے۔محض ظاہری ہیئت اگر کسی اخلاقی یا تعبدی معاملے میں خرابی پیدا نہیں کرتی تو وہ بذات خود گناہ نہیں ہو سکتی۔لہٰذا لازم ہے کہ ہیئت کے ظاہر کے ساتھ کوئی اخلاقی مسئلہ وابستہ ہو، جیسے تکبر وغیرہ۔
چونکہ تہمد ایسا لباس ہے جو لٹکتے لٹکتے پاؤں میں آپڑتا ہے،اور جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ لباس اس معاشرت کا جز تھا اور اس سے مفر ممکن نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہمد باندھنے کا طریقہ بھی مسلمانوں کو بتایا کہ کس طرح وہ تہمد باندھ کر متکبرین کی مشابہت سے بچ سکتے ہیں۔ وہ طریقہ آپ نے یہ بتایا کہ باندھتے وقت اسے نصف ساق(پنڈلی)تک باندھا جائے۔اس طرح باندھنے سے ہی تہمد پاؤں میں پڑنے سے بچ سکتا ہے۔ اگر اس سے نیچے باندھا جائے تو وہ لٹکتا لٹکتا پاؤں میں آ پڑے گا۔ آپ کا فرمان ہے: 'ازرۃ المسلم الی نصف الساق فلا جناح فیما بینہ وبین الکعبین. فما کان اسفل من ذلک ففی النار' (احمد بن حنبل) ''مسلمان کے تہمد کی حد نصف ساق تک ہے۔البتہ،نصف ساق سے ٹخنوں تک بھی کوئی حرج نہیں ہے،لیکن ٹخنوں سے آگے جو کچھ ہے، وہ آگ میں جائے گا۔''
[۱۹۹۳ء]
_________
۱ اخرجہ مسلم،عن ابی ہریرہ،فی کتاب الایمان۔
۲ اخرجہ احمد بن حنبل،عن مسلم بن یناق عن عبداللہ بن عمر