*صحیح بخاری: كتاب: الجنائز* *کتاب: جنازے کے احکام و مسائل* *THE BOOK OF AL-JANAIZ (FUNERALS). - مکتبہ فیوض القرآن

یہ بلاگ اسلامی معلومات کے ڈیجیٹل اور فزیکل وسائل تک رسائی کےلیے مواد مہیا کرتا ھے۔ ھمارے واٹس ایپ پر رابطہ کرٰیں 00-92-331-7241688

تازہ ترین

Sponser

Udemy.com Home page 110x200

Translate

اتوار، 22 ستمبر، 2019

*صحیح بخاری: كتاب: الجنائز* *کتاب: جنازے کے احکام و مسائل* *THE BOOK OF AL-JANAIZ (FUNERALS).

*🌹آج کا درس حدیث🌹*
*《باب: ما جاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما》*
*《باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان》*
*CHAPTER: What is said regarding the graves of the Prophet ﷺ, Abu Bakr, and Umar (رضي الله عنهما).*
📝 قَوْلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ فَأَقْبَرَهُ، أَقْبَرْتُ الرَّجُلَ أُقْبِرُهُ إِذَا جَعَلْتَ لَهُ قَبْرًا وَقَبَرْتُهُ دَفَنْتُهُ كِفَاتًا يَكُونُونَ فِيهَا أَحْيَاءً وَيُدْفَنُونَ فِيهَا أَمْوَاتًا.
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره‏» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره‏» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا‏» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہو گے.
*《حدیث نمبر: 1392》*
🌹📖 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ فَقُلْ:‏‏‏‏ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ،‏‏‏‏ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي،‏‏‏‏ فَلَمَّا أَقْبَلَ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا لَدَيْكَ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ،‏‏‏‏ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي،‏‏‏‏ ثُمَّ سَلِّمُوا،‏‏‏‏ ثُمَّ قُلْ:‏‏‏‏ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي،‏‏‏‏ وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ،‏‏‏‏ فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا،‏‏‏‏ فَسَمَّى عُثْمَانَ،‏‏‏‏ وَعَلِيًّا،‏‏‏‏ وَطَلْحَةَ،‏‏‏‏ وَالزُّبَيْرَ،‏‏‏‏ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ،‏‏‏‏ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ،‏‏‏‏ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ،‏‏‏‏ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ،‏‏‏‏ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي،‏‏‏‏ وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ،‏‏‏‏ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ،‏‏‏‏ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ،‏‏‏‏ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ".
*اردو ترجمه:*
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں. جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے. عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی. لیکن جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے. اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کر دینا، ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا. میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے. وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں، خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو، آپ نے اس موقع پر عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے. اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو، اللہ عزوجل کی طرف سے، آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے. پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا. پھر آپ نے شہادت پائی. عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں. نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب. ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے، ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں. یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی. (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگزر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گزارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے. انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے.
*English Translation:*
Narrated `Amr bin Maimun Al-Audi: I saw `Umar bin Al-Khattab (when he was stabbed) saying, "O `Abdullah bin `Umar! Go to the mother of the believers Aisha and say, `Umar bin Al-Khattab sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn `Umar conveyed the message to `Aisha.) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him (`Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When `Abdullah bin `Umar returned, `Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that `Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her (`Aisha ) and say, `Umar bin Al-Khattab asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the graveyard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (ﷺ) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of `Uthman, `Ali, Talha, Az-Zubair, `Abdur-Rahman bin `Auf and Sa`d bin Abi Waqqas. By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." `Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."
*🥀فوائد:🥀*
🖋 شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد حفظه الله تعالى
✍ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس طویل حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آخری آرام گاہ اور ان کے نزدیک اس کی اہمیت ثابت کرنا چاہتے ہیں. اگرچہ اس حدیث میں آپ کے دفن ہونے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر اسے بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رضي الله عنه) کی وفات ہوگئی تو ہم ان کا جنازہ لے کر مسجد نبوی کی طرف چلے. وہاں پہنچ کر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اجازت طلب کرتے ہیں. ان کے اجازت دینے کے بعد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کیا گیا. (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:3700)
✍ چونکہ آپ کی شہادت اچانک ہوئی تھی، اس لیے آپ کے نزدیک تین کام بہت اہم تھے:
٭ خلافت کا معاملہ.
٭ قرضوں کی ادائیگی.
٭ جوارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش.
ان میں مؤخر الذکر بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس خواب گاہ کے حصول سے زیادہ اور کوئی چیز اہم نہ تھی. سب سے زیادہ فکر، تمنا اور خواہش یہی تھی کہ وہ مبارک اور مقدس جگہ مجھے حاصل ہو جائے. اس کے حصول کے لیے آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حضور بڑی عاجزانہ درخواست پیش کی. اپنے لخت جگر سے کہا کہ امیر المؤمنین کہنے کے بجائے میرا نام لینا. الغرض پوری طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اطمینان دلایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی گرانی یا دباؤ محسوس نہ کریں. (فتح الباری:7/85) سبحان اللہ! کیا مقام ہے؟ ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ طیبہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھتے ہیں، ساتھ ہی آپ (ﷺ) کے جانثاروں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر بھی انہیں سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے.
والله تعالى أعلم.💐💎

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot