حسرت ہی دل ِ زار نہ بے زار کی نکلی
تسکین وراثت مِرے زر دار کی نکلی
محفل میں تِری جب کہ میں خاموش تھا بیٹھا
کیوں تجھ کو ضرورت مِری گُفتار کی نکلی
وہ جان ِ مسیحا تھے نگاہوں میں شفا تھی
اور درد عنایت بھی چشم ِ یار کی نکلی
اب روک سکو گے نہ مجھے راہ ِ سفر سے
اب جان طبیبا تِرے بیمار کی نکلی
بازار سجانے کے لئے دیکھ لیا نا
"آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی"
یہ شوق و جنوں ہائے خِرد راہ ِ تمنّا
صحراؤں میں صُورت نہ ندی پار کی نکلی
شہزؔاد دم ِ نزع مجھے آئے ہیں ملنے
صد شکر یہ حسرت بھی دل ِ زار کی نکلی
محمد شہزؔاد حیدر