مکتبہ فیوض القرآن

یہ بلاگ اسلامی معلومات کے ڈیجیٹل اور فزیکل وسائل تک رسائی کےلیے مواد مہیا کرتا ھے۔ ھمارے واٹس ایپ پر رابطہ کرٰیں 00-92-331-7241688

تازہ ترین

Sponser

Udemy.com Home page 110x200

Translate

اتوار، 12 مئی، 2019

خلاصہ قرآن پارہ وإذا سمعوا. پارہ 7

اتوار, مئی 12, 2019 0

╔─────✨📖✨─────╗
   *📜خصوصی پوسٹ برائے رمضان 2019*
              *📖خـــــلاصــہ قـــــرآن*
╚─────✨📖✨─────╝
 *💫ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ*


 *🌹مجموعه فيوض القرآن*

         ••✥🌹✨✨✨🌹✥••

             *📖پـــــارہ:7⃣*

*وَإِذَا سَمِعُواْ*


*🔖ابتداء میں عیسائیت کے منصف مزاج اور معتدل طبقہ* کی تعریف کی گئی ہے۔

_واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضور علیہ السلام کی اجازت سے مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کرکے عیسائیوں کے ملک حبشہ چلی گئی۔ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور غلط بیانی کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ نجاشی نے انہیں طلب کرکے سوالات کئے۔_

*📖مسلمانوں کے نمائندہ جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں قرآن کریم کی سورہ مریم پڑھ کر سنائی۔ نجاشی اور اس کے ساتھیوں پر قرآن کریم سن کر رقت طاری ہوگئی۔*

 ان کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبانے لگیں اور کلام الٰہی سے متأثر ہوکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور مسلمانوں کو سرکاری مہمان کے طور پر اپنے ملک میں ٹھہرانے کا اعلان کردیا۔ ان کی اور اس قسم کے دوسرے عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کو سنتے ہیں تو حق کو پہچان کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اسلام کی حقانیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔ 

*🌀اس کے بعد حلال و حرام*

 کے حوالے سے کچھ گفتگو اور انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔

*📝قسم کی اقسام اور کفارہ کا حکم* بیان کیا گیا ہے۔

*⭕شراب اور جوے*

 (قمار) کی حرمت کا حتمی فیصلہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیطان اس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کو ام الخبائث کے استعمال سے باز آجانا چاہئے۔

*♦حدیث شریف میں آتا ہے کہ:-*

 حضرت عمر نے جب فہل انتم منتہون (کیا تم باز نہیں آئوگے؟) کا قرآنی جملہ سنا تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بے اختیار پکار اٹھے انتہینا یا ربنا (اے ہمارے رب! ہم باز آگئے)

*🚫حالت احرام میں شکار کی ممانعت*

اور اس کی جزا کا بیان ہے۔ محرم کو مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے کہ سمندر میں حجاج کے قافلہ کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔

*🕋کعبۃ اللہ کی مرکزیت اور بقاء انسانیت*
کی علامت ہونے کا بیان ہے۔

*💞▪خبیث اور طیب میں امتیاز*

 برتنے کی تلقین ہے کہ کسی چیز کی قلت و کثرت اچھائی کا معیار نہیں ہے۔ حلال و حرام، مطیع و عاصی، بھلا اور برا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بیجا سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔

_مختلف حوالوں سے جانور مخصوص کرنے کی مذمت کی گئی ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی یا اس قسم کے ناموں سے جانوروں کے تقدس کی اسلامی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔_

*🚫قرآنی تعلیمات کے خلاف آباء و اجداد*

کی ناجائز تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ فساد زدہ معاشرہ میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہے تو گمراہ اور نافرمانوں کے غلط اثرات سے محفوظ رہوگے۔ 

*🔘قیامت کے دن*

کے بے لاگ محاسبہ کی یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ اس ہولناک دن میں انبیاء علیہم السلام بھی جوابدہی کے لئے اللہ تعالی کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ 

*✨حضرت عیسیٰ علیہ السلام*

جیسے صاحب عزیمت رسول جنہیں مردوں کو زندہ کرنے، بینائی اور برص کے لاعلاج مریضوں کو چنگا کرنے اور مٹی کے جانوروں میں اللہ تعالی کے حکم سے روح پھونکنے کے معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ انہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ عیسائیوں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو اپنا معبود کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت عجز و انکساری سے عرض کریں گے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے تو آپ کی توحید و الوہیت کی تبلیغ کی تھی۔

_میرے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے میری اور میری والدہ کی عبادت شروع کردی تھی۔ یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں، معاف کریں یا عذاب دیں یہ آپ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آج کے دن سچائی کے علمبردار ہی عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکیں گے۔ ان کے لئے دائمی طور پر باغات اور بہتی نہریں تیار ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہیں وہ اللہ سے راضی ہیں۔_

*🍇🍎اس سے پہلے مائدہ*

 (دسترخوان) کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کہنے لگے: اے عیسیٰ! اپنے رب سے کہئے کہ ہمیں جنت کے کھانے کھلائے۔ اللہ تعالی نے ایک دسترخوان اتارا، جس میں انواع و اقسام کے جنتی کھانے تھے۔

*⭕خیانت کرنے اور بچا کر رکھنے*

 سے انہیں روکا گیا تھا، مگر انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خیانت کے مرتکب افراد کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردیا۔

▪▪📖▪▪

*📖سورہ الانعام*

یہ مکی سورہ ہے۔ چونکہ اس سورہ میں انعام (چوپائے) اور ان سے متعلقہ انسانی منافع کا تذکرہ ہے۔

_نیز جانوروں سے متعلق مشرکانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی تردید کی گئی ہے۔ اس لئے اس سورہ کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔_

*💠ابن عباس فرماتے ہیں*

 کہ مکہ مکرمہ میں ایک ہی رات میں بیک وقت اس شان سے اس سورہ کا نزول ہوا کہ اس کے جلوس میں ستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اس کا مرکزی مضمون توحید کے اصول و دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت و آخرت کے موضوع پر بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔

_دعوت کا کام کرنے والوں کو دلائل و براہین کے تیز دھار اسلحہ سے مسلح کیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز کہیں الزامی ہے تو کہیں مطمئن کرنے کے لئے عقل و خرد کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔_

*🚫 سورہ کی ابتداء سے ہی دو خداؤں*

 (یزدان واھرمن) کے عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین کا خالق اور ظلمت و نور کا خالق ایک ہی ہے اور وہ قابل تعریف ’’اللہ تعالى‘‘ ہے۔

*💠پھر رسالت محمدی*

کے منکرین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی حقانیت کا اثبات کیا اور دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں ہم نے اقتدار سے نوازا اور پھر بارشیں برساکر ان کے باغات کو سرسبز و شاداب بنایا اور انہیں معاشی خوشحالی عطا کی مگر وہ ہماری نافرمانی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کرکے تباہ و برباد کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لے آئے لہٰذا تمہیں ہلاک کرکے دوسروں کو تمہاری جگہ دے دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ یا تو فرشتہ ہم سے آ کر آپ کو نبی تسلیم کرنے کے لئے کہے یا ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ خط بھیج دیں تو آپ کی نبوت کو تسلیم کرلیں گے۔

*🌀اللہ تعالیٰ نے فرمایا:*

 اگر ہم نے خط بھیج بھی دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر اسے دیکھ بھی لیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہم فرشتے کو بھیجیں تو وہ بھی انسانی شکل میں ہی آئے گا اور ان کا اعتراض پھر بھی برقرار رہے گا۔

*✨حضور علیہ السلام کو تسلی*

 دیتے ہوئے فرمایا اگر آپ کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو آپ سے پہلے انبیاء کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ دنیا میں نکل کر دیکھیں وہ لوگ کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔

*🕋پھر توحید باری تعالیٰ*

 پر دلائل جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر آپ پر کوئی مصیبت آ جائے تو اسے اللہ تعالى ہی ٹالتے ہیں اور اگر وہ آپ کو فائدہ پہنچائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

*▪پھر قیامت کا تذکرہ*

 شروع کر دیا کہ ہم جب انہیں قیامت میں جمع کرکے پوچھیں گے تو یہ صاف انکار کردیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں مگر ان کی بدعملی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا ہوا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی باتوں کا یہ اثر قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس زندگی دنیا ہی کی ہے۔

_قیامت کے دن ہم انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کرکے پوچھیں گے اب بتاؤ یہ سچ ہے یا نہیں؟ پھر انہیں اپنے کفر کی سزا برداشت کرنی پڑے گی۔_

*🔖حضور صلی اللہ علیہ وسلم*

 کافروں کی ہدایت کے لئے اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کردی جائیں تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم ایمان نہیں لائیں گے.

*✨اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-*

 اگر آپ ان کا اعراض برداشت نہیں کرسکتے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر ان کی مطلوبہ نشانی کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئیے۔ یہ لوگ ہدایت پر نہیں آئیں گے اور ہم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتے۔ آپ ان سے کہئے! اگر اللہ کا عذاب تم پر آجائے یا قیامت برپا ہوجائے تو کیا پھر بھی تم غیر اللہ کو پکاروگے؟

_ظاہر ہے کہ ایسے مشکل وقت میں اپنی مصیبتیں دور کرنے کے لئے تم اللہ تعالى ہی کو پکارتے ہو اور اپنے شرکاء کو بھول جاتے ہو۔ پہلی اقوام پر ہم نے تنگدستی اور بیماری ڈالی مگر وہ راہ راست پر نہیں آئے پھر ہم نے انہیں آرام و راحت دی اس پر بھی وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے کی بجائے سرکشی و ضلالت میں مزید ترقی کر گئے تو ہم نے اچانک انہیں ایسا پکڑا کہ وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ظالموں کی جڑیں کٹ کر رہ گئیں۔_

*🎙آپ ان سے کہہ دیجئے*

 کہ اللہ تعالی کے خزانے میرے اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہونے کا دعویدار ہوں، میں تو اپنے رب کی وحی کا پابند ہوں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالی کا خوف ہے اور اپنے رب کے سامنے جمع ہونے سے ڈرتے ہیں آپ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ ڈراتے رہئے۔ اللہ کے علاوہ اس دن کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں بن سکے گا۔ 

*🚫مشرکین مکہ*

کے متکبر اور ہٹ دھرم سرداروں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ہدایت کے راستہ پر لانے کی امید میں آپ ایسے مخلص اور غریب اہل ایمان کو اپنی مجلس سے نہ دھتکاریں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے صبح و شام اس کا ذکر کرتے ہیں۔

_یہ بھی امتحان کا ایک حصہ ہے کہ کافر و متکبر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر حقارت سے ایسے جملے کسیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہم پر ترجیح دی ہے؟ اللہ تعالی شکر گزاروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں،_

*💖ایمان والے جب آپ کے پاس آئیں*

 تو ان کے لئے سلامتی کی دعاء کریں اور انہیں اپنے رب کی رحمتوں کی خوشخبری سنائیں اور اگر نادانی کے ساتھ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اسے توبہ اور اپنی اصلاح کی تلقین کر کے امید دلائیں کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔ ہم اسی طرح وضاحت سے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ کار واضح ہوجائے۔

*⛔پھر نظام کفر*

سے دوٹوک براءت کے اظہار کی تلقین ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ نشانیاں نبی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ اللہ تعالی کا اختیار ہے۔

_غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں بحر و بر کی ہر چیز کا علم اسی کے پاس ہے۔ درختوں سے گرنے والا ایک پتہ یا زمین کی پنہائیوں میں کوئی دانہ اور کوئی بھی خشک و تر اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔_

*🔖اللہ تعالی کی قدرت*

اور اس کے حفاظتی نظام کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا کہ اللہ تعالی کے عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ آسمان سے بھی نازل ہوسکتا ہے۔ زمین سے بھی نکل سکتا ہے اور فرقہ واریت میں شدت کی بناء پر باہمی جنگ و جدل کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔

*🌟حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی ستارہ پرست*

 قوم کے ساتھ مناظرہ کا بیان ہے کہ ستارے، چاند، سورج ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا محتاج اور کمزور ہے رب نہیں ہوسکتا۔

_پھر ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی خوبی کا بیان ہے اور وہ ان کا یہ اعلان ہے ’’میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر یکسوئی کے ساتھ آسمان و زمین کے خالق کی طرف کرلیا اور میں مشرکین میں سے نہیں‘‘_ 

*📝پھر کمال اختصار*

کے ساتھ تین سطروں میں اٹھارہ انبیاء و رسل کا تذکرہ اور تعریف بیان کی گئی ہے اور ان کی طرز زندگی کو اپنانے کی تلقین ہے۔

*📖پھر قرآن کریم کے عموم و شمول*

اور اس کی حقانیت کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے والوں کو روز قیامت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی۔

*🕋پھر قدرت خداوندی*

 کی کائناتی حقائق میں مشاہدہ کرنے کی دعوت ہے۔ اللہ تعالی ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور پودے پیدا کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ (مادی طور پر جیسے مرغی سے انڈا اور انڈے سے مرغی اور روحانی طور پر جیسے کافر کے گھر میں مسلمان اور مسلمان کے گھر میں کافر پیدا کرنا) دن وہی نکالتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے رات کو لے آتا ہے۔ سورج چاند کو حساب کے لئے مقرر کیا ہے۔

_خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لئے ستارے اسی نے بنائے ہیں۔ اسی نے ایک جان (آدم علیہ السلام) سے تمام انسان پیدا کرکے ان کی عارضی رہائش گاہ (دنیا) اور ان کی مستقل رہائش گاہ آخرت کو بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر کھیتیاں اور باغات پیدا کئے جن کے اندر سبزیاں، پھل، کھجوریں اور انگور بنائے جو گچھے والے بھی ہیں اور بغیر گچھے کے پیدا ہونے والے پھل بھی ہیں۔ پھلوں کے موسم میں دیکھو کیسے خوشنما اور بھلے لگتے ہیں۔_

*📚علم، سمجھ بوجھ اور ایمان رکھنے والوں کے لئے قدرت الٰہی اور وحدانیت کے واضح دلائل ہیں۔* 

*🚫مشرکین مکہ کی تردید*

 کی جن کا عقیدہ تھا کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں اللہ تعالی کی بیویاں ہیں اور فرشتے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

_اللہ تعالی کی بیوی ہی نہیں ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔_

*🏷وحی کی اتباع*

 کی تلقین کی اور مشرکین کے معبودوں کی برائی کرنے سے روکا کیونکہ وہ ضد اور مقابلہ میں اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ یہ لوگ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مطلوبہ نشانی دکھادی جائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے۔

_نشانیاں دکھانا تو اللہ تعالی کیلئے کوئی مشکل نہیں مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔_

*🔖اہم نکات اور کرنے کے کام‼* 

*💠توجہ سے اللہ تعالی کا کلام سننا اتنا اثر انگیز ھے کہ آنکھیں آنسووں بہانے لگتی ھیں اور دل حق کو پہچان کر عمل پر آمادہ ھو جاتا ھے۔*

*💠حق بات اور عمدہ بات کرنے سے جنت لازم ھو جاتی ھے۔*

*💠ارادتا کھائی گئی جھوٹی قسم کا کفارہ 10 مساکین کو کھانا کھلانا یا لباس پہنانا یا ایک گردن آزاد کرنا ۔اگر استطاعت نہ ھو تو 3 دن کے مسلسل روزے رکھنا ھے۔*

*💠دین سیکھنے کے لئے ضروری سوال کرنے میں ھی بھلائی ھے۔ غیر ضروری سوال کر کے مشکل پیدا نہیں کرنی۔*

*💠قیامت کے دن سچوں کو ان کی سچائی کے بدلے جنت ،اللہ تعالی کی رضامندی اور بڑی کامیابی ملے گی۔*

*💠اللہ تعالی ہر حال اور عمل سے واقف ھے اس لئے چھپ کر بھی غلط کام نہیں کرنا ھے۔*

*💠شکر گزاری پر نعمت ملنا اللہ تعالی کی رضا کا جبکہ نافرمانی کے باوجود نعمت ملنا ڈھیل دینے کے مترادف ھے۔*

*💠رب کے قریب مگر دنیاوی لحاظ سے کم حیثیت لوگوں کو خود سے دور نہیں کرنا کیونکہ ایمان کی وجہ وہ سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔*

*💠غیب کی کنجیاں یا بحر و بر کے خزانے ،زمین پر گرنے والا پتا یا اسکی گہرائیوں میں دب جانے والا دانہ سب کا جاننے والا اللہ تعالی ھے۔*

*💠اللہ تعالی اپنے بندوں پر غالب ھے۔ جب چاھے فرشتہ بھیج کر روح قبض کر سکتا ھے۔*

*💠اللہ تعالی کی خاطر ابراھیم ؑ نے سب کنبہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالی نے نسل انبیاء اور صالحین پیداکر کے بہترین جزادی۔*

*💠قرآن کو پڑھ کر جو عمل کرے گا ۔اس کی زندگی برکتوں سے مالا مال ھو جائے گی۔*

*آیئے‼* 
اللہ تعالی کو اس کی آیات اور صفات کے ذریعے پہچان کر خالص توحید کا اقرار کریں ۔۔

🌹🌹♥▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

*📃پیشکشں:*

*🎓محمد عتيق الرحمن* 

*📲ایڈ ھونے کے لیئے رابطہ کرین
https://chat.whatsapp.com/DMxEBbnPKzfCGJKWtKW4p9
Read More

جمعہ، 23 نومبر، 2018

اگر غیر منکوحہ لڑکی خواب ميں یہ دیکھے

جمعہ, نومبر 23, 2018 0

 : إذا رأت الفتاة الغير متزوجة أن رجلاً غريباً يقوم بمجامعتها وممارسة العلاقة الزوجية معها
 فإن الرائية تقبل على عمل او وظيفة او عمل سيء ، وربما اشارت رؤيتها إلى تعرف الرائية على رجل سيء الطباع يسعى لقضاء حاجاته وإشباع غرائزه منها .
اما إذا كانت الفتاة ذات خلقٍ ودين وطيبة الخلق وحسنة السلوك ولا تخالط الرجال فإن رؤيتها تعبر عن قرب زواجها وارتباطها ، وفي حال رأت الفتاة أن رجلاً أبيض حسن الهيئة والسلوك يجامعها فإنه يعبر عن الراحة والسعادة التي تلاقيها الرائية في زواجها ،  وأما إن كان الرجل فظ السلوك سيء الهيئة والصورة فإنه يعبر عن مصائب وشدائد مختلفة تهدد استقرار حياتها .
من رأت أن الرجل يجامعها في السوق وأمام الناس فإن رؤيتها تدل على كشف أسرار ومعلومات تخص الرائية قد تتعلق بعرضها وشرفها .

اگر غیر منکوحہ لڑکی یہ دیکھے کہ کوئی نامعلوم آدمی  اس کے ساتھ جماع کرتا ھے یا علاقہ زوجیت کا قائم کرتا ھے  اور عورت اس کے بدلے اس سے کوئی کام لیتی ھے یا پیسے لیتی ھے یا کوئی برا کام کرواتی ھے ۔۔ تو دلیل ھے کہ وہ گندی طبیعت کے آدمی سے واقف ھوگی جو اپنی خواھشات پوری کرنا چاھتا ھے
اور اگر لڑکی دیندار ھے بااخلاق ھے حسن سلوک والی ھےاور اس کا مردون کے ساتھ کوئی اختلاط نہین رھتا تو۔۔ اس کا یہ خواب دیکھنا دلیل ھے اس بات کی اس کا نکاح قریب ھے۔۔اور اگر دیکھے کہ لڑکا خوبصورت ھے اچھی صورت والا ھے۔۔ اس کے ساتھ جماع کرتا ھےتو یہ دلیل ھے راحت سعادت کی جو اس کو شادی کے بعد حاصل ھونے والی ھے
[اور اگر بندہ برے سلوک والا ھے گندی شکل والا تو دلیل ھے مشکلات  کی جو اس کی زندگی میں آنے والی ھین
Read More

بدھ، 14 نومبر، 2018

Thank you for signing up!

بدھ, نومبر 14, 2018 0

HIRESINE
Thank you for signing up!Your account is now active.
If you have any problems, please contact us at hiresine@gmail.com
Thank you!
The HIRESINE Team
Read More

جمعہ، 2 نومبر، 2018

مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملہ میں شہیدؔ

جمعہ, نومبر 02, 2018 0


آج بروز جمعہ مورخہ 2 نومبر 2018 کو مولانا جب روالپنڈی اپنے کمرے میں آرام فرما رھے تھے کسی نے ان کو چھریوں سے وار کرکے شھید کر دیا۔
راولپنڈی پولیس نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ سمیع الحق راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں سفاری ون ولاز میں رہائش پذیر تھے. 



یہ واقعہ اس دوران پیش آیا بکہ مولانا اسلام آباد دھرنے میں شرکت کے لیے پشاور سے روانہ ھونے کے لیے تشریف لائے تھے وہ اپنے گھر سفاری ولاز واپس روانہ ھوگئے تھے اور اپنے کمرے میں آرام کر رھے تھے۔۔پڑوسیوں کی اطلاع کے مطابق قاتل موٹر سائیکل پر سوار تھے یہ قتل قاتلوں نے پوری منصوبہ بندی سے کیا

Read More

اتوار، 28 اکتوبر، 2018

تفسیر جواھرالقرآن - سورۃ 1 - الفاتحة - آیت 2

اتوار, اکتوبر 28, 2018 0


أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

ترجمہ:
سب 1 تعریفیں 2 اللہ کے لیے ہیں جو پالنے والا 3 سارے جہان کا 4

تفسیر:
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
1 سورة الفاتحہ 
 خلاصہ : سورة فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے ” اُمُّ الْقُرْاٰنْ “ سب سے زیادہ جامع اور مشہور ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ امّ کے معنی یہاں مغز اور خلاصہ کے ہیں یہ سورت چونکہ ان تمام مضامین کا خلاصہ ہے جو سارے قرآن میں بالتفصیل مذکور ہیں اس لیے یہ سورة مبارکہ ام القرآن کے نام سے موسوم کی گئی۔ اس کی دو تقریریں ہیں۔
 پہلی تقریر : مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اس کی تقریر یہ فرمائی کہ قرآن مجید میں چھ مضامین بیان کیے گئے ہیں۔
 1 ۔ توحید 2 ۔ رسالت 3 ۔ احکام 4 ۔ قیامت 5 ۔ ماننے والوں کے احوال 6 ۔ نہ ماننے والوں کے احوال۔
 اور سورة فاتحہ میں یہ تمام مضامین بالاجمال موجود ہیں۔ الحمدللہ سے الرحمن الرحیم تک توحید۔ ملک یوم الدین میں قیامت۔ ایاک نعبد اور اھدنا الصراط المستقیم میں احکام کا بیان ہے کیونکہ نعبد میں عبادت کے تمام طریق اور احکام کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح الصراط المستقیم سے شریعت کے تمام احکام مراد ہیں صراط الذین انعمت علیھم میں ایک طرف رسالت کا بیان ہے کیوں کہ منعم علیہم چار جماعتیں ہیں جن میں انبیاء (علیہم السلام) سرفہرست ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادھے اولئک الذی انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا (سورۂ نساء) اور دوسری طرف ماننے والوں کے احوال کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ماننے والوں کو ہر قسم کے انعام واکرام سے نوازاجائے گا۔ اور غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میں نہ ماننے والوں کا ذکر ہے۔ اسی طرح یہ سورت قرآن مجید کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے اور اسی بنا پر اس کا نام ام القراٰن ہے۔
 دوسری تقریر : دوسری تقریر ہمارے شیخ حضرت مولانا حسین علی (رح) کی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت امام ربانی (رح) نے حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے۔ نیز تفسیر مواہب الرحمان جلد 1 ص 3 میں ہے کہ سارے آسمانی علوم اور قرآن مجید کا خلاصہ سورة فاتحہ میں موجود ہے کیوں کہ مضامین کے اعتبار سے قرآن مجید کے چار حصے ہیں ہر حصہ الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے۔
 پہلا حصہ سورة فاتحہ سے سورة مائدہ کے آخر تک ہے اس حصہ میں زیادہ تر خالقیت کا بیان ہے یعنی ساری کائنات کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ دوسرا حصہ سورة انعام سے سورة بنی اسرائیل کے آخر تک ہے اس حصہ کا مرکزی مضمون ربوبیت ہے یعنی اس میں زیادہ تر اس میں زیادہ تر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو حد کمال تک پہنچانے والا۔
Read More

تفسیر جواھر القرآن۔ سورة الفاتحه

اتوار, اکتوبر 28, 2018 0
القرآن - سورۃ 1 - الفاتحة - آیت 1

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورة الفاتحہ۔ سورة نمبر ۔ تعداد آیات 7 )
Read More

بدھ، 10 اکتوبر، 2018

ماہ صفر اور اس کی بدعات

بدھ, اکتوبر 10, 2018 0


از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏، استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو:
          عَنْ أبي ھُرَیْرَةَ رضي اللّٰہُ عنہ قال: قال النبيُّ ﷺ :”لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)
          مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔
ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ
          ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “․
          ترجمہ:”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا ،میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا“۔
          اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے،طریقہٴ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ؛اس لیے سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری دی ہے۔
          تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث موضوع ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے؛ چناں چہ ائمہٴ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
           چناں چہ ملا علی القاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ لَا أصْلَ لَہ“․(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبریٰ، حرف المیم، رقم الحدیث: 437،2/324،المکتب الإسلامي)
           اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال القاري في الموضوعات تبعاً للصغاني: ”لَا أصْلَ لَہ“․ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم، رقم الحدیث:2418، 2/538،مکتبة العلم الحدیث )
          اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال الصغاني: ”موضوع“․ وکذا قال العراقي․ (الفوائد المجموعة في أحادیث الضعیفة والموضوعة للشوکاني، کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیة والعبادات في الشھور، رقم الحدیث: 1260،ص:545، نزارمصطفیٰ الباز، مکة المکرمة)
          اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          وکذا (أي: موضوع) ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قزویني، وکذا قال أحمد بن حنبل:اللآلیٴ عن أحمد ومما تدور في الأسواق ولا أصل لہ․ (تذکرة الموضوعات للفتني،ص:116، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
          فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ :
          میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟․․․․․تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی؛ جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے؛حالاں کہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے(۵/۴۶۱)۔
          نمبر: ۲   اس منگھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
          نمبر : ۳  محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا؛ اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا؛ چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
          خلاصہٴ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
 ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت
          ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو روزہ رکھنے کا شرعی حکم
          حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ،جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔
          سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
          جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس (روزہ) کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی؛ کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم
          اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قُل اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ﴾ دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ﴿ قُل ادْعُوا اللّٰہَ أوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ دوآیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
          اس طریقہٴ نماز کی تخریج کے بعدحضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔
          وہ شرائط یہ ہیں:
          (1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لیے کیا جاتا ہے۔
          (2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
          (3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
          (4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
          (5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام: 5/ 103، 104، إدارة القرآن کراتشي)
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم
          سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام (کھانا کھلانا) کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
          جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)
صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم
          سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کے اعمال شریعت میں جائزہیں یا نہیں؟
          الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد:2/302، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا
          سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دار“ ان ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے؛ کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاوٴ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل ِ صحت کیا تھا؛ مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں غیرمعمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تومعلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارو مدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔
          الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟
          ب:جاہل کاریگروں کی ایذاء رسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کا فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟
          ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟
          د: حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟
          الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں؛ البتہ شدتِ مرض کی روایت ”مدارجُ النبوة“ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے۔
          یہود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔
          (الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں (ہوتا) ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر (ہوتا)ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسی کفر و شرک ہے؛ اس لیے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روز غسل ِصحت (کرنا) ثابت نہیں ہے،(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، (نیز!) بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
          (ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
          (ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)
          (د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3/ 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
          سوال:ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
          الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے؛ اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1/360، ایچ ایم سعید)
صفر کے آخری بدھ کو چُری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے
          سوال: ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ”ماہنامہ النصیحہ“ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) و خیرات یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟
          الجواب: چوں کہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے۔ لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ”انہوں نے چُری مانگی “ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لِعَدَمِ ثُبُوْتِ ہَذا الْحَدِیْثِ فِي کُتُبِ الأحَادِیْثِ وَلاَ بِالاسْنَادِ الثَّابِتِ، وَہُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/296،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں
          سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، (۱)کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے، (۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
          الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے؛کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم متداول کتبِ فقہ کا حوالہ ذکر کریں۔
          مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کاروائی کی․ وھُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/298،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کی خوراک کھانے کا حکم
          سوال: چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا
          الجواب: چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لاِٴنَّ فِیْہِ تَخْصِیْصُ الزَّمَانِ وَالنَّوْعِ بِلاَ مُخَصِّصٍ، یَدُلُّ عَلَیْہِ مَا فِي الْبَحْرِ(:2/159) البتہ عوام کے لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما في الھندیہ: وَلاَ یُبَاحُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَةُ ثَلاَثَةَ أیَّامٍ فِي أیَّامِ الْمُصِیْبَةِ وَاذَا اتَّخَذَ لاَ بَأسَ بِالْأکَِْ مِنْہُ، کذا في خِزانةِ المفتین․5/380․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/299، مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
 صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت
          سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں؛ اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
          الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامُ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی؛ بلکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ ۲۸/ صفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، مفتی عبدالرحیم فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ ۲۶/صفر ۱۱ھ دو شنبہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، ۲۸/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)
          اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۲۸/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم :2/84،جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ، وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة: 2/68،69،دارالاشاعت)
          حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرت المصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں کہ
          ” ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام” ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا“۔(سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، علالت کی ابتداء: 3/156،کتب خانہ مظہری، کراچی)
          سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ” صفر / ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا“ ۔(سیرة النبی :2/115،اسلامی کتب خانہ)
          اسی کے حاشیہ میں ”علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ“ لکھتے ہیں:
          ”اس لیے تیرہ (۱۳) دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ ( حاشیہ سیرة النبی: 2/114،اسلامی کتب خانہ)
          سیرة خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ” ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی“۔ (سیرت خاتم الانبیاء ، ص:126، مکتبة المیزان،لاہور)۔
خلاصہٴ بحث
          اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔
          لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور قدرت بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔(۴)

از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏، استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو:
          عَنْ أبي ھُرَیْرَةَ رضي اللّٰہُ عنہ قال: قال النبيُّ ﷺ :”لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)
          مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔
ماہِ صفر کے بارے میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا جائزہ
          ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “․
          ترجمہ:”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا ،میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا“۔
          اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے،طریقہٴ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ؛اس لیے سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوش خبری دی ہے۔
          تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث موضوع ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے؛ چناں چہ ائمہٴ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
           چناں چہ ملا علی القاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ“ لَا أصْلَ لَہ“․(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبریٰ، حرف المیم، رقم الحدیث: 437،2/324،المکتب الإسلامي)
           اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال القاري في الموضوعات تبعاً للصغاني: ”لَا أصْلَ لَہ“․ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، حرف المیم، رقم الحدیث:2418، 2/538،مکتبة العلم الحدیث )
          اور شیخ الاسلام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
          ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قال الصغاني: ”موضوع“․ وکذا قال العراقي․ (الفوائد المجموعة في أحادیث الضعیفة والموضوعة للشوکاني، کتاب الفضائل، أحادیث الأدعیة والعبادات في الشھور، رقم الحدیث: 1260،ص:545، نزارمصطفیٰ الباز، مکة المکرمة)
          اور علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          وکذا (أي: موضوع) ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ “ قزویني، وکذا قال أحمد بن حنبل:اللآلیٴ عن أحمد ومما تدور في الأسواق ولا أصل لہ․ (تذکرة الموضوعات للفتني،ص:116، کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
          فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ :
          میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟․․․․․تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی؛ جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے؛حالاں کہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے(۵/۴۶۱)۔
          نمبر: ۲   اس منگھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
          نمبر : ۳  محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا؛ اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا؛ چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا، جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
          خلاصہٴ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
 ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت
          ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو روزہ رکھنے کا شرعی حکم
          حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ،جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔
          سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
          جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس (روزہ) کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی؛ کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)
ماہِ صفر کے آخری بدھ کو ایک مخصوص طریقے سے ادا کی جانے والی نماز کا حکم
          اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ﴿قُل اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ﴾ دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ﴿ قُل ادْعُوا اللّٰہَ أوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ دوآیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
          اس طریقہٴ نماز کی تخریج کے بعدحضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔
          وہ شرائط یہ ہیں:
          (1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لیے کیا جاتا ہے۔
          (2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
          (3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
          (4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
          (5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مخصوصة، القول الفیصل في ھٰذا المقام: 5/ 103، 104، إدارة القرآن کراتشي)
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم
          سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام (کھانا کھلانا) کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
          جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)
صفر کے آخری بدھ کی رسومات اور فاتحہ کاحکم
          سوال: آخری چہار شنبہ جو صفر کے مہینے میں ہوتا ہے، اس کے اعمال شریعت میں جائزہیں یا نہیں؟
          الجواب: آخری چہار شنبہ کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں اور جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہیں۔ (کفایت المفتی، کتاب العقائد:2/302، ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا
          سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دار“ ان ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے؛ کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاوٴ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل ِ صحت کیا تھا؛ مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں غیرمعمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تومعلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارو مدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔
          الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟
          ب:جاہل کاریگروں کی ایذاء رسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کا فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟
          ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟
          د: حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟
          الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں؛ البتہ شدتِ مرض کی روایت ”مدارجُ النبوة“ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)میں ہے۔
          یہود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔
          (الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں (ہوتا) ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر (ہوتا)ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسی کفر و شرک ہے؛ اس لیے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روز غسل ِصحت (کرنا) ثابت نہیں ہے،(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے، (نیز!) بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
          (ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
          (ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2/704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)
          (د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3/ 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا
          سوال:ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
          الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے؛ اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1/360، ایچ ایم سعید)
صفر کے آخری بدھ کو چُری کرنا بدعت اور رسم قبیحہ ہے
          سوال: ہمارے علاقے صوبہ سرحد میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں (چُری) کہتے ہیں، عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت یابی کی خوشی میں کی تھی۔ ”ماہنامہ النصیحہ“ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) و خیرات یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟
          الجواب: چوں کہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے۔ لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے آخری چہار شنبہ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ”انہوں نے چُری مانگی “ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے، لِعَدَمِ ثُبُوْتِ ہَذا الْحَدِیْثِ فِي کُتُبِ الأحَادِیْثِ وَلاَ بِالاسْنَادِ الثَّابِتِ، وَہُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/296،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں
          سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، (۱)کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے، (۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
          الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے؛کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم متداول کتبِ فقہ کا حوالہ ذکر کریں۔
          مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کاروائی کی․ وھُوَ الْمُوَفِّقُ․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/298،مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
چُری کی خوراک کھانے کا حکم
          سوال: چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا وتوجروا
          الجواب: چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے، لاِٴنَّ فِیْہِ تَخْصِیْصُ الزَّمَانِ وَالنَّوْعِ بِلاَ مُخَصِّصٍ، یَدُلُّ عَلَیْہِ مَا فِي الْبَحْرِ(:2/159) البتہ عوام کے لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے، لما في الھندیہ: وَلاَ یُبَاحُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَةُ ثَلاَثَةَ أیَّامٍ فِي أیَّامِ الْمُصِیْبَةِ وَاذَا اتَّخَذَ لاَ بَأسَ بِالْأکَِْ مِنْہُ، کذا في خِزانةِ المفتین․5/380․ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنة و البدعة، 1/299، مکتبہ دارالعلوم صدیقیہ صوابی )
 صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت
          سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں؛ اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
          الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامُ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی؛ بلکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ ۲۸/ صفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، مفتی عبدالرحیم فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔”شمس التواریخ“وغیرہ میں ہے کہ ۲۶/صفر ۱۱ھ دو شنبہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷/صفر سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، ۲۸/صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے؛ لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا،ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا، اسی دن عشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)
          اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۲۸/ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں؛ البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعة والرسوم :2/84،جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ، وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنة والبدعة: 2/68،69،دارالاشاعت)
          حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرت المصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں کہ
          ” ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام” ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا“۔(سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، علالت کی ابتداء: 3/156،کتب خانہ مظہری، کراچی)
          سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ” صفر / ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا“ ۔(سیرة النبی :2/115،اسلامی کتب خانہ)
          اسی کے حاشیہ میں ”علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ“ لکھتے ہیں:
          ”اس لیے تیرہ (۱۳) دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ ( حاشیہ سیرة النبی: 2/114،اسلامی کتب خانہ)
          سیرة خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ” ۲۸/ صفر ۱۱ ہجری چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی“۔ (سیرت خاتم الانبیاء ، ص:126، مکتبة المیزان،لاہور)۔
خلاصہٴ بحث
          اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَنْ بَشَّرَنِيْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔
          لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور قدرت بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔
Read More

Post Top Ad

Your Ad Spot