- مکتبہ فیوض القرآن

یہ بلاگ اسلامی معلومات کے ڈیجیٹل اور فزیکل وسائل تک رسائی کےلیے مواد مہیا کرتا ھے۔ ھمارے واٹس ایپ پر رابطہ کرٰیں 00-92-331-7241688

تازہ ترین

Sponser

Udemy.com Home page 110x200

Translate

بدھ، 28 ستمبر، 2016

‎تبرکات کی شرعی حیثیت !!!


یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں ، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات ، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا ، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کوتبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے ، ان سے مدد مانگنے لگے ، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں ، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجرو ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا ۔

‎محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں :

‎1... ممنوع تبرک: :
‎جو جائز تبرک میں شامل نہ ہویا شارع نے اس سے منع فرما دیاہو

‎۔2 ... مشروع تبرک :
‎جسے اللہ ورسول نے جائز قرار دیا ہو ۔

‎ممنوع تبرک:ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:
‎سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے ، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ایک بیری تھی ، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے)اپنااسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے ، اسے ذات ِ انواط کہا جاتا تھا ، ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !جس طرح مشرکین کا ذات ِ انواط ہے ، ہمارے لیے بھی کوئی ذات ِ انواط مقرر کر دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‎ الله اکبر ، انها السنن ، قلتم ، والذی نفسی بیده ، کما قالت بنو اسرائیل لموسی {اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ}
‎(الاعراف ؛ ۱۳۸)
‎لترکبن سنن من کان قبلکم ۔''اللہ اکبر ! اللہ کی قسم ، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا
‎{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ}
‎ (الاعراف ؛ 138)"
‎ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجیے ، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں )ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔''
‎(مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذی : 2180،مسند الحمیدی ؛ 868، المعجم الکبیر للطبرانی 274/3، صحیح)
‎امام ِ ترمذی نے اس حدیث کو ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان (4702)نے ''صحیح'' کہاہے۔

‎مشروع تبرک:
‎آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں : عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :
‎اخرج الینا انس رضی الله عنه نعلین جرداوین ، لهما قبالان ، فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس انهما نعلا النبی صلی الله علیه وسلم۔''سیدناانس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے ، ان کے دو تسمے تھے ، اس کے بعدمجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔''
‎صحیح بخاری : 438/1،ح؛3107

‎ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا:
‎ هذه
‎کانت عند عائشة حتی قبضت ، فلما قبضت قبضتها ، وکان النبی صلی الله علیه وسلم یلبسها ، فنحن نغسلها للمرضیٰ یستشفیٰ بها ۔

‎''یہ سیدہ عائشہ کے پاس تھا ، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے ، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں ۔''
‎(صحیح مسلم :2/ 190، ح: 2049)

‎سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا ، ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل نے اسے نکالااور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا ، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔
‎(صحیح بخاری 842/2 ح: 5437)

‎عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے ، جنہیں ہم نے سیدناانس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا ، کہتے ہیں ، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔
‎(صحیح بخاری : 29/1،ح:0 17 )

‎یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔

‎حافظ شاطبی فرماتے ہیں :

‎صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ(تبرک)مقرر نہ کیا ، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر صدیق تھے ، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے ، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا ، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے ، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے ، کسی سے بھی باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ )کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کا ر پر اکتفاکیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک ِ تبرکات پر اجماع ہے ۔
‎''(الاعتصام ؛9-2/8)

‎حصولِ برکت کی خاطر انبیا ء و صلحاء کی قبرو ں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں :
‎لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد ؛ المسجد الحرام ، مسجد الرسول ، وبیت المقدس۔''(برکت حاصل کرنے کی نیت سے)رخت ِ سفر صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور بیت المقدس۔'
‎'(مصنف ابن ابی شیبة ؛ 2/45، وسنده صحیح)

(بشکریہ :محدث فورم)

***دورِ حاضر میں تبرکات کا حکم***

‎برکت درحقیقت خیر کا نام ہے اور فرمانِ نبوی کے مطابق سب خیر اللہ کی طرف سے ہے۔
‎اور اللہ کب کس کو برکت سے نوازے ، وہ خود نبی کو وحی سے بتائے گا یا پھر ان لوگوں کی بات کا اعتبار ہوگا جو نبی کے تبرکات سے برکت کے حصول کا اعتراف کریں (جیسا کہ کچھ صحیح احادیث سے ایسے اعترافات سامنے آتے ہیں)۔
‎لیکن محض اپنے قیاس سے حتمی طور پر یہ کہہ دینا کہ :
‎فلاں فلاں کافر / منافق کو نبی کے تبرکات سے برکت مل گئی یا فائدہ پہنچ گیا ۔۔۔جبکہ عبداللہ بن ابی کے کام کوئی تبرک نہ آیا۔
‎معذرت کہ ایسے بلا دلیل قیاسات قابل قبول نہیں ہو سکتے اور نہ تبرکات پر ایسا انحصار کر بیٹھنے کی تعلیم ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دی ہے۔

‎بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو اصل تعلیم ہم کو دی ہے ، اس کی طرف ہمارے ایک بھائی نے بجا طور پر یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ :
‎نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔
‎بےشک ان تمام صحیح احادیث پر ہمارا ایمان ہے جن سے وضاحت ہوتی ہے کہ صحابہ نے نبی کے تبرکات سے فوائد حاصل کیے۔
‎لیکن کیا صحابہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کو بذات خود شفا سمجھتے تھے یا ان کو "شفا کا سبب" سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ : برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ؟؟

‎علاوہ ازیں ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال صالحہ کی طرف کس طرح حکیمانہ رہنمائی کی تھی ۔۔۔۔
‎ ابی قراد رضي الله عنه سے روایت کی گئی صحیح حدیث اس ضمن میں ملاحظہ
‎ عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر اپنے بدن پر ملنے لگے تو آپ نے فرمایا :
‎تمہیں ایسا کرنے پر کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے؟
‎ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت
‎آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو ۔۔۔
‎جب وہ بات کرے تو سچی بات کرے
‎اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے
‎اور جو اس کا پڑوسی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
‎(علامہ البانی نے اس حدیث کو ثابت کہا ہے اور اس کے متعدد طرق و شواہد کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے مجموعے "الاحادیث الصحیحہ" میں حدیث نمبر:2998 کے تحت درج کیا ہے)

‎۔۔۔
‎عصر حاضر کے محدث کبیر علامہ البانی اپنی کتاب "التوسل انواعه واحكامه" میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
‎یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حدیبیہ وغیرہ میں صحابہ کرام کو اپنے آثار سے تبرک حاصل کرنے میں رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سخت ضرورت تھی اور وہ ضرورت یہ تھی کہ آپ کفار قریش کو ڈرائیں اور اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت ، تعظیم و تکریم اور خدمت کے جذبہ کو ظاہر کریں۔
‎لیکن اس کے بعد آپ نے نہایت حکیمانہ طور پر مسلمانوں کو اس تبرک سے پھیر دیا تھا اور ان کو اعمال صالحہ کی طرف رہنمائی کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اعمال صالحہ اللہ کے نزدیک اس تبرک سے بہتر ہے۔
‎آخری بات ۔۔۔۔
‎تبرکاتِ نبوی کا انکار کوئی بھی مسلمان نہیں کرتا !!
‎جبکہ عموماً ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ :
‎سعودی عرب کے علماء نے تبرکاتِ نبوی کا انکار کیا ہے۔

‎لہذا ۔۔۔۔۔ بہتر ہے کہ سعودی عرب میں نہایت قابل احترام سمجھے جانے والے
‎اور اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے معتبر علماء کے نزدیک قابل اعتبار
‎اور عصر حاضر کے عظیم محدث امام ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ کا وہ اعتراف نامہ یہاں پیش کر دیا جائے جسے انہوں نے اپنی کتاب "التوسل انواعه واحكامه" میں درج کیا ہے :
‎اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ ہمارے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ لیکن اس تبرک کے لیے کچھ شرطیں ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ایمان شرعی ہو ، لہذا جو سچا مسلمان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس تبرک سے کوئی چیز عطا نہیں کرے گا۔
‎دوسری شرط یہ ہے کہ تبرک کا طلب کرنے والا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار میں سے کسی اثر کو حقیقت میں پا جائے اور اس کو استعمال کرے ، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے آثار جیسے کہ کپڑا ، بال وغیرہ مفقود ہیں اور کوئی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کپڑا یا بال ہے۔ لہذا ان آثار سے اس زمانے میں تبرک حاصل کرنا بےمعنی اور بےموضوع بات ہے اور یہ صرف ایک خیالی معاملہ ہے ، لہذا اس بارے میں مزید گفتگو مناسب نہیں !
‎بحوالہ : التوسل انواعه واحكامه ، ص:146

(بشکریہ:اردو مجلس)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot